خانم فاطمہ طباطبائی نوفل شیٹا میں امام خمینی(رہ) سے پہلی ملاقات کے بارے میں اپنی کتاب " اقلیم خاطرات " میں لکهتی ہیں:
ہم پیرس ائیر پورٹ پر پاسپورٹ کی چیکنگ کے کاونٹر پر پہنچے تو ائیرپورٹ پولیس نے ہمیں دیکه کر امام خمینی کا نام لیا!
(ظاہراً) یہاں پر جو لوگ بهی امام خمینی کو ملنے کے لئے آتے تهے ہوائی اڈے کا عملہ انہیں مہربانی اور خندہ پیشانی سے پیش آتا اور امام خمینی کے نام سے ان کا استقبال کرتا۔
میری نظر احمد آقا پر پڑی۔ احمد آقا کی خوشی و مسرت ہمیں اور خاص کر یاسر کو دیکه کر قابل دید تهی۔ سلام و دعا کے بعد ائیرپورٹ سے باہر کهڑی گاڑی میں سوار ہونے کے لئے ہوائی اڈے سے باہر آئے۔
ڈرائیور بڑی سڑکوں کو عبور کرنے کے بعد چهوٹے روڈ پر چند موڑ مڑنے کے بعد ایک گهر کے سامنے رکا۔
جب ہم گهر میں داخل ہوئے تو حسن نے اپنے دادا اور دادی سے خوب پیار کیا۔ دادا دادی نے بهی خوشی اور مسرت سے حسن کو پیار کیا۔ جب حسن اپنے والد کے پاس بیٹه گیا تو امام خمینی نے یاسر کو مجه سے لیا۔ اسے پیار کیا اور اسکے کان میں کوئی دعا پڑهی ایک سونے کا چهوٹا سا ٹکڑا ان کے پاس تها جو انہوں نے یاسر کی پیدائش کی مناسبت سے مجهے تحفے کے طور پر دیا اس موقع پر امام نے مسکراتے ہوئے کہا: اگر تمہاری بیٹی نہیں ہے تو گویا اولاد نہیں ہے!
میں نے بهی مسکراتے ہوئے جواب دیا: آپ کو تو خدا نے احمد جیسا بیٹا عطا کیا ہے پهر بهی آپ یہ بات کہہ رہے ہیں! آپ نے سر کو ہلایا اور کہا: احمد اس سے مستثنی ہے۔ وہ منفرد ہے۔