امام خمینی رہ ماہ مہر کی دس تاریخ ۱۳۵۸ ہجری شمسی کو نجف سے پیرس جانے کی تاریخ پر اپنی جلاوطنی کے حقائق کا ذکر فرماتے ہیں:
جو حادثہ پیش آیا میں بطور مختصر اسے بیان کرنا چاہوں گا۔ جب ہم ترکی سے عراق میں داخل ہوئے اور پهر نجف پہنچے، عراقی حکومت کی طرف سے کچه لوگ بارہا آئے اور انہوں نے صراحت فرمائی کہ عراق آپ کا اپنا ملک ہے، آپ جہاں چاہیں رہیں، جہاں چاہیں جائیں اور آپ جو چاہیں ہم اس کی انجام دہی کے لئے آمادہ ہیں۔
آہستہ آہستہ عراقی حکومت کا رویہ بدلا، پہلے تو کچه لوگ ہمارے گهر کے نزدیک ہمارے محافظ بن کر آئے۔ دهیرے دهیرے ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
ایک روز بغداد سے امنیت کے شعبہ سے متعلق ہیڈ آفیسر آیا۔ کچه دن بعد ایک دوسرا شخص آیا۔ اس نے قانونی طور مجه سے کہا: چونکہ ایرانی حکومت سے ہمارے کچه معاہدات ہیں لہذا ہم آپ کو یہاں کسی بهی طرح کی سرگرم عمل نہیں دیکه سکتے۔
اگلے دن پهر وہ آکر کہتا کہ آپ کچه تحریر کرنے کا حق نہیں رکهتے یا مثلاً منبر پر اپنی بات نہیں کہہ سکتے، اسی طرح آپ کو کیسٹ ریکارڈ کرکے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی انجام دہی ہمارے معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے جو مجه پر عائد ہوتا ہے۔ میں پمفلٹ بهی لکهوں گا، اور وقت ضرورت منبر پر جا کر تقریر بهی کروں گا اور کیسٹ پُر کر کے ایران بهی بهیجوں گا۔ یہ میری شرعی ذمہ داری ہے۔ آپ بهی اپنی ذمہ داری پر عمل کیجئے۔
میں نے جناب دعائی سے کہا: آپ جائیے اور میرے ویزا، ٹکٹ کا انتظام کیجئے۔ ہم سیریا{شام} جا نا چاہتے تهے کہ وہاں قیام کریں؛ لیکن ہم نے پہلے کویت کا ارادہ کیا اور وہاں دو چار روز رُ کر شام کا رخ کریں۔ کویت کے بارڈر پر پہنچے ہی تهے کہ چند منٹ بعد وہ آفیسر آکر کہتا ہے آپ کویت نہیں جا سکتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا: ٹهیک ہے ہم یہاں سے ائرپورٹ جائیں گے اور وہاں سے چلے جائیں گے۔اس نے کہا: نہیں۔ آپ یہیں سے آئے ہیں اور یہیں سے واپس جائیے۔ اسی جگہ سے ہم عراق واپس آئے اور رات بصرہ میں بسر کی اور اگلے روز بغداد پہنچے۔ میں نے بصرہ میں یہ ارادہ کر لیا تها کہ ہم کسی بهی اسلامی ملک کا رُخ نہیں کریں گے کیونکہ وہاں بهی یہی مشکلات پیش آنے کا اندیشہ تها۔ ہم نے ارادہ کیا کہ ہم فرانس کا سفر کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم خود سے پیرس کا سفر نہیں کرنا چاہتے تهے یہ سب جو کچه از اول ہوا سب خدا وند عالم کی مرضی کے مطابق ہوا۔
جب ہم پیرس پہنچے، وہاں موجود تمام برادران نے مہر ومحبت اور گرمجوشی کے ساته ہمارا استقبال کیا۔ پهر ہم اس سے نزدیک واقع ایک دیہات پہنچے۔
شروع میں فرانس کی حکومت محتاط تهی لیکن پهر دهیرے دهیرے محبت آمیز رویہ رہا۔
بسا اوقات امریکی نامہ نگار آتے اور ہم ان سے گفتگو کرتے۔ ہم ایران کے داخلی مسائل نیز ایرانی عوام پر ہونے والے شدائد ومصائب کو کما حقہ بیان کرتے تهے۔
جب ادهر ہم نے ایران کا سفر کرنے کا عزم کیا، تو ہمارے ایران نہ آنے کے لئے طرح طرح کے کام انجام دئیے گئے۔ یہاں تک کہ خود ایران سے کچه لوگ فرانس کی حکومت کے توسط سے ہم تک پہنچے کہ ابهی ایران نہ آئیے!
میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمارا ایران جانا ان کے لئے یقیناً نقصان دہ ہے۔ اگر ہمارے ایران جانے سے انہیں کوئی فائدہ پہنچنا ہوتا اور اگر ہمارے ایران پہنچے سے یہ ہمیں روک سکتے تو ہرگز اس قسم کی بات نہ کرتے۔ بالآخر ہم ایران کے لئے عازم سفر ہوئے اور پہنچ بهی گئے۔
خداوندعالم نے ان تمام مراحل میں ہماری اور ایرانی عوام کی نصرت ویاری فرمائی۔
منبع: جماران