ایک دن بهائی جوادنے شب برات کے جشن سے واپسی پہ بتایا کہ آج کے جشن میں سب لوگ امام خمینی کی تصویر کے احترام میں کهڑے ہو گئے تهے اور سب مل کے یہ شعر پڑه رہے تهے:
اے زوطن ان مجاہد دربند // اے دل اہل وطن بہ مہر تو پیوند
دیر نپاید چنین شبان نفس گیر // زود زند صبح انقلاب شکر خند
یہ اشعار سن کر امام خمینی کی جلاوطنی کی داستان میرے ذہن میں گهومنے لگی کہ ایک دن ایک خاتون ہمارے گهر آتیں ہیں اور میری والدہ سے کچه کہتی ہیں اور پهر وہ خاتون اور میری والدہ دونوں رونے لگتی ہیں ، میں اپنے آپ کو ماں کی گود میں گرا کر پوچهتی ہوں:
امی جان کیا ہوا؟ کیا کوئی فوت ہو گیا ہے؟ جس پر میری والدہ مجهے پیار دیتی اور کہتی ہیں: کچه نہیں ہوا بیٹا !تم جاؤ مہمان کے لیے چائے تیار کرو!
مجهے احساس ہوا کہ میری موجودگی میں بات نہیں کرنا چاہتیں۔ میں اٹهی اور سیدهی والد صاحب کے پاس چلی گئی۔ انہوں نے بهی یہی کہا کہ بیٹا جو کچه بهی سنا ہے اسے کسی کے سامنے بیان نہ کرنا! میں نے بهی اس ڈر سے کہ کہیں والد صاحب کے لیے کوئی مشکل پیش نہ آئے اس بات کو کسی سے بهی بیان نہ کیا۔ کچه عرصے بعد معلوم ہوا کہ اس خاتون نے امام خمینی کی ترکی میں جلا وطنی کی خبر دی تهی۔
اقلیم خاطرات / خانم فاطمہ طباطبائی