صفر کے مہینہ کے آخری دن خانم (سید احمد خمینی کی والدہ ) سےحضرت علی (ع) کے حرم میں ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے کہا: صفر تمام ہونے کے بعد ہمارے گهر آئیں گی۔ والدہ صاحبہ نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم واپس ایران جانے کا ارادہ رکهتے ہیں اور آپ سے الوداع کہنے کی خواہش تهی۔
دوسرے دن عصر کے وقت خانم اپنی والدہ خازن الملوک ، بڑی بیٹی صدیقہ، سید مصطفی کی زوجہ معصومہ اور اپنی تین چهوٹی بیٹیوں کے ساته ہمارے گهر تشریف لائیں۔ گهر میں داخل ہوتے ہی مجهے بہو کہہ کے پکارا!آغوش میں لے کے پیار کیا اور پهر مہمان خانہ میں تشریف لے گئیں۔
اپنے لیے بہو پکارے جانے پہ تعجب ہوا ، اچانک رونہ شروع کر دیا!
اس حالت میں کہ جب میرے اشک میرے رخساروں سے ٹپک رہے تهے، ایک واقعہ میرے ذہن میں آیا اور ہلکی مسکراہٹ نے میرے اشکوں کی جگہ لے لی! جب میں پانچ سال کی تهی تو ایک دن میری والدہ کسی خاتون سے بات کر رہی ہیں اور بار بار اس خاتون سے کہہ رہی ہیں میری کوئی بیٹی نہیں! میں بہت حیران ہوئی کہ کیوں میری والدہ میرے ہونے کا انکار کر رہی ہیں؟ ! میں بهی اسی کمرے میں داخل ہو گئی جہاں والدہ صاحبہ اور وہ خاتوں باتیں کر رہی تهیں۔ والدہ نےمیری طرف اشارہ کرتے ہوئے اس خاتون سےکہا: دیکهو! میری بیٹی ابهی بہت چهوٹی ہے۔ اس خاتون نے کہا: کوئی بات نہیں ہم صبر کر لیں گے! ہمارا بیٹا بهی ابهی صرف ۱۶ سال کا ہے۔ اس وقت پتہ چلا یہ خاتون میرے رشتہ کے لیے آئی ہے۔ دوڑتی ہوئی کمرے میں گئی ایک سٹول پہ کهڑی ہو کے اپنے آپ کو آئینہ تک پہنچایا تاکہ یہ دیکه سکوں کہ آیا میرے بال سنورے ہوے! میرا چہرا دهلا ہوا اور صاف ہے! میں اس سے بی خبر تهی کہ میرا بهائی میری یہ حرکت دیکه رہا تها اور یہ حرکت اس کے قہقہوں کا باعث بنی لیکن میرے لیے پهر بهی یہ ایک عادی بات تهی۔ میرےبهائی نے یہ بات سب گهر والوں کو بتائی اور سب بہت ہنسے مگر میرے لیے کیونکہ عادی بات تهی مجهے ان کے ہنسنے کی سمجه نہ آ سکی۔
مہمانوں کی باتیں کرنے کی آواز میرے کانوں تک آ رہی تهی، اپنے آنسو صاف کیے اور مہماں خانےمیں داخل ہو گئی۔خانم (سید احمد خمینی کی والدہ محترمہ ) بہت آراستہ ، خوش لباس، متواضع اور خوش طبیعت تهیں۔ اپنے آپ میں سوچا وہ لڑکی کتنی خوش نصیب ہو گی جس کے شوہر کی ماں یہ خانم ہیں!
اس طرح کا اتفاق میرے لیے نیا تها جس میں رشتہ کی بات میں، میں خود بهی موجود تهی چونکہ پہلے جتنے رشتے آئے والدہ صاحبہ کے منع کرنے کی وجہ سے خود سامنے نہیں آتی تهی،مگرہم اس خاندان کے لیےخاص عزت و احترام کے قائل تهے اس لیے میرے لیے اس محفل میں آنا مشکل نہ تها۔ اس کے بعد خانم نے اس امید کے ساته کہ دوبارہ ایران میں ملیں گے، خدا حافظ کہا اور ہمارے گهر سے رخصت ہوئیں۔
اقلیم خاطرات / خانم فاطمہ طباطبائی