مرقد امام خمینی(ره) میں شب قدر کی مناسبت سے حجۃ الاسلام ناطق نوری نے تقریر کے دوران بیان کیا:
آج ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بهی مورخین ومحققین امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کےکسی گوشہ کو کما حقہ بیان نہیں کر سکے ہیں ،یہ کہنا تها حجۃ الاسلام والمسلمین ناطق نوری کا۔امیرالمومنین ایک انسان کامل ہیں جن کے سلسلہ میں اب تک کافی ریسرچ اور تحقیقات ڈیٹابیس تیار ہوئے ہیں ۔ان میں سے ایک جارج جرداق نامی مسیحی رائٹر کی معرکۃ الآراء کتاب " الامام علی صوت العدالۃ الانسانیۃ" ہے۔یا پهر حضرت علی کے بارے میں سنی عالم دین عبد الفتاح عبد المقصود کی چند جلدوں پر مشتمل کتاب۔
حجۃ الاسلام ناطق نوری نے امام علی علیہ السلام سے متعلق ہونے والے سیمینار میں شرکت کی غرض سے کئے جانےو الے سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:ہندوستان میں عید غدیر کے موقع پر ایک دانشور کی تقریر کے بعد میری تقریر کم رنگ نظر آئی۔اسی سفر کے دوران حیدرآباد میں ہونے والی دوسری تقریب میں جب میں شریک ہوا تو وہاں کے گورنر کی تقریر نے مجهے حیرت زدہ کر دیا۔پروگرام کے اختتام پر جب میں نے ان سے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں موصوف کی شناخت کا ذریعہ جاننا چاہا تو جواب ملا:میں نوجوانی میں مہاتما گاندهی کا ساته دنیے والوں میں سےایک تها۔بابائے قوم ہمیشہ دو شخصیات کوبالخصوص انقلابی مہم چهیڑنے میں میرے لئے نمونہ عمل کے طور پر پیش کرتے تهے ۔ایک تو حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے آپ کے فرزند امام حسین علیہ السلام۔
لوگوں اور کارکنان کے ساته امام علی علیہ السلام کا رویہ بیان کرتے ہوئے آقای ناطق نوری نے کہا:حضرت علی علیہ السلام کی زندگی میں دو چیز ہمیشہ سرفہرست نظر آتی ہے ایک تو حق کی رعایت دوسرے عدالت کا نفاذ۔مولا کا پچیس سالہ سکوت بهی صرف اور صرف حق کے دفاع میں تها۔اپنا حق بهول کر اسلام کی بقا کے لئے امام نے اقدام کیا۔
مولا خلافت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ انہیں میری خلافت کا علم تها ،میری قدرت اور میرے علم سے وہ آگاہ تهے انہیں بخوبی معلوم تها کہ میری برابری کرنے والا کوئی موجود نہیں لیکن میں نے اسلام کے تحفظ کی خاطر صبر سے کام لیا۔اس انسان کے مانند صبر کیا جس کی آنکه میں خس وخاشاک اور لقمہ گلو بگیر ہو۔
پچیس سال بعد جب خلافت کے سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام سے مراجعہ کیا تو مولا نے صراحتاً فرمایا کہ اگر میں حکومت قبول کروں گا تو اس شرط پر کہ میں اپنی مرضی سے عمل کروں گا نہ کہ تمہارے اشارہ اور فرمان پر۔
اگر خلافت کی زمام میرے ہاتهوں میں آئی تو لوگوں پر ظم وستم کے پہاڑ توڑنے والوں اور بیت المال کا خزانہ اپنا مال سمجهنےو الوں کو ہرگز میں نہیں بخشوں گا۔یہاں تک کہ اگر بیوی کا مہر بهی رہ گیا ہو تو اسے بهی لے کر دم لوں گا۔
حجۃ الاسلام ناطق نوری نے اضافہ کیا:مسلمانوں نے امیرالمومنین کی بات قبول کی اور ان کی بیعت کی۔بعض ایسے لوگ بهی تهے جنہوں نے بروقت بیعت تو کی لیکن جب مولا کو قول وفعل کا دهنی پایا تو بیعت توڑ دی ۔جبکہ انہیں معلوم تها کہ حضرت علی علیہ السلام نے عدل وعدالت کے لئے حکومت کی باگڈور سنبهالی تهی۔
امیرالمومنین نے فقط پانچ سال حکومت کی اور اس قلیل مدت میں تین جنگوں میں شرکت فرمائی۔یہ جنگ کسی اور سے نہ تهی بلکہ مسلمانوں اور اہل قبلہ سے تهی۔صرف اس لئے کیوں کہ حق کی آپ کے لئے بنیادی حیثیت رکهتا تها اور عدالت کے سب حق کے قیام کی خاطر آپ نے جنگ کی۔
جناب نوری نے تقریر کے دوسرے حصہ میں ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم گذشتہ کے مانند اس سال بهی یوم قدس کے موقع پر حالت روزہ میں دشمنوں سے اظہار بیزاری کرے گی۔اور یہ اعلان کرے گی کہ اب بهی ہم اپنے انقلاب کے اقدار کی محافظت کرنےو الے ہیں وہ انقلاب جس کی شہداء کے خون نے آبیاری کی ہے۔
ایران کے داخلی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے حجۃ الاسلام ناطق نوری نے اضافہ کیا کہ ہماری ایک مشکل کسی کی بیجا طرفداری کرنا ہے جبکہ علوی حکومت میں دور دور تک اس کا گزر نہیں ملتا۔علوی حکومت میں اگر کسی کو خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا جاتا تها تو فوراً اسے معزول کر دیا جاتا۔دوسری مشکل چاپلوسی ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:خدا وند عالم نے تمام امور کا اختیار خود انسان کو دیا ہے ،لیکن خود کو ذلیل کرنا یہ انسان کے بس کی بات نہیں۔
حضرت علی علیہ السلام شہر انبار میں داخل ہوئے اس شہر کے شہری جو کہ ایرانی تهے انہوں نے سجدہ کرنا شروع کر دیا۔مولا نے دریافت کیا یہ سجدہ کس لئے؟ایرانیوں نے جواب دیا:یہ ہماری رسم ہے۔اس موقع پر حضرت نے فرمایا:کتنی بری رسم ہے جس کا دنیا میں رنج وغم کے سوا کوئی بدل نہیں اور آخرت میں عذاب کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ایک شخص امام علی علیہ السلام کی تعریف کرتا اور چاپلوسی کی کوشش کرتا۔جب اس کی گفتگو مکمل ہوئی تو مولا نے فرمایا:میں تیری جهوٹی تعریف سے کہیں کم اور تیرے دل میں جو گزر رہا اس سے کہیں ارفع واعلیٰ ہوں۔
حجۃ الاسلام ناطق نوری نے آخر میں کہا:ہمیں چاپلوسی سے بچتے ہوئے مولا علی علیہ السلام کی نظر کرم چاہئے۔
منبع: جماران