۵/ بج کر ۱۵/منٹ پر۴/نومبر ۱۹۶۴ء کو مہرآباد ہوائی اڈے پر عظیم الشان مہمان کی مہمان نوازی کا اہتمام تها جس نے چند سالہ ہجرت کا آغاز کیا تها۔ امام خمینی(رح) قم کے پولیس اسٹیشن کے مامورین اور ساواک کے مامورین کے ذریعہ گرفتار ہوئے اور بلا فاصلہ اس ہوائی اڈہ پر منتقل کیا گیا اور وہاں سے انکار اورکچه دیر بعد بورسا ترکیہ جلاوطن کردیا گیا۔ بورسا کا اس لئے انتخاب کیا گیا تها کہ وہ شہر ایرانیوں کے لئے مجہول اور اجنبی تها اور اس شہر میں امام سے دیگر لوگوں کے رابطہ رکهنے کا امکان نہیں تها۔ اس طرح سے ترکیہ میں مجبوراً آپ کا گیارہ ماہ تک قیام رہا۔
بورسا شہر درحقیقت ایک ضلع یا صوبہ کا مرکز اسی نام سے ہے کہ مرکز ترکیہ میں واقع ہے اور استنبول کے مغربی جنوب سے ۷۰/کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جو دریائے مرمرہ کے ساحل پر واقع ہے۔
۲۰۰۷ کی مردم شمار بتاتی ہے کہ یہ ترکیہ کا بهاری اکثریت پر مشتمل ایک صوبہ ہے۔ بورسا، شمال کی طرف سے دریائے مرمرہ اور یالوا اور مشرقی شمال کی طرف سے استنبول اور ساکاریا اور مشرق کی طرف سے بیلہ جیک اور جنوب کی طرف سے کوتاہیہ اور مغرب کی طرف سے پالیک شہیر پر تمام ہوتاہے۔ اس شہر کا نام تاریخی اورپرانا نام ہے ، وہ یونانی پروسا سے ماخوذ ہے لیکن عربی، ایرانی اور اسلامی مآخذ میں اسے "بورصہ" سے یاد کیا گیا ہے۔
بورسا جو زیادہ تر ایک صنعتی شہر ہے اس کی جغرافیائی موقعیت کے لحاظ سے آلوداغ پہاڑ کے دامن میں اور دوسری طرف سے پر سکون دریائے مرمرہ کا کنارہ ہے جو بہت حسین اور خوبصورت ہے۔ اور اس شہر میں پارکوں کی کثرت اور اس کی شادابی کی وجہ سے اسے کبهی یشیل بورسا یعنی بورسا سبز بهی کہتے ہیں۔ سبز کا لقب شہر کے بعض جلووں کو بهی متاثر کئے ہوئے ہے جیسا کہ اس شہر یشیل کی مشہور ترین مسجد جامع مسجد سبز ہے۔