ایرانی مہینہ مہر ماہ ۱۳۴۴ ش کی مورخہ۵/اگست ۱۹۶۵ء کو امام خمینی(رح) اور ان کے فرزند آیۃ اللہ آقا مصطفیٰ اپنی جلاوطنی کے دوسرےمرکز یعنی عراق بهیجے گئے۔ یہ دونوں باپ اور بیٹے عراق میں داخل ہونے کے بعد ایک ہفتہ تک عراق کے مختلف شہروں یعنی کاظمین، سامرا اور کربلا جیسے مقامات مقدسہ کی زیارتوں کے بعد نجف اشرف میں آکر مقیم ہوگئے۔ ۱۳/سال کا طویل عرصہ یہاں گزر گیا اور آخری سال امام نے اپنے شہید فرزند کے بغیر گزارے۔
نجف، عراق کے ایک شہر کا نام ہے اور شیعوں کے پہلے امام حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا روضہ ہے، جغرافیائی موقعیت کے لحاظ سے بغداد کے جنوب میں ۱۶۰/کیلو میٹر ۹۹۵/ ۳۱ شمالی اور ۳۳۵، ۴۴مغربی مختصات میں واقع ہے۔ یہ شہر شیعوں کے پاکیزہ ترین شہروں میں ایک شہر اور عراق میں شیعوں کی سیاسی طاقت کا مرکز شمار ہوتا ہے۔ اور اس کے قریب میں کوفہ ہے اس طرح سے کہ نجف اور کوفہ دو شہروں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے، نجف کا تاریخی سابقہ کوئی خاص نہیں ہے۔ اس شہر کی شہرت حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی وصیت کے مطابق آپ کے اس شہرمیں دفن ہوجانے کی وجہ سے ہے جو شیعوں کے پہلے امام ہیں اور مسجد کوفہ میں آپ کی شہادت ہوئی ہے۔ آپ نے وصیت کی تهی کہ مجهےشہر کوفہ سے قریب پوشیدہ طور پر ایک انجان جگہ پر دفن کیا جائے۔ اس علاقہ کو اس وقت نجف کہتے ہیں، پهر اس امام عالی مقام کی شہادت کے ایک صدی بعد ان کے بعد کے ائمہ نے آپ کے مدفن کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔ اور یہی بات باعث ہوئی کہ تدریجاً علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے چاہنے والے وہاں گهر بنا کر سکونت کرنے لگے۔
اس کے بعد تدریجاً نجف شیعہ عوام کا ایک مرکز ہوگیا اور شہر مذہبی مرکز بن گیا اور وہاں سب سے پہلا شیعہ حوزہ علمیہ وجود میں آیا۔ آیۃ اللہ عبدالکریم حائری کے ذریعہ حوزہ علمیہ قم کے رونق پانے سے پہلے لوگ اپنے تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑهانے کے لئے نجف اشرف جاتے تهے۔ اگرچہ اس وقت صورت حال فرق کررہی ہے۔ لیکن آج بهی نجف کا حوزہ علمیہ بلند درجہ رکهتا ہے۔ حوزہ علمیہ نجف میں اکابر شیعہ علماء تحصیل اور تدریس میں مشغول رہے ہیں کہ حضرت امام خمینی)رح( کامسجد شیخ انصاری میں ۱۳/ سالہ تدریسی دورہ اسی میں سے ایک ہے اور اس وقت شیعوں کے مرجع تقلید آیۃ اللہ سیستانی اس شہر میں ساکن ہیں۔