اراک

اراک

امام خمینی اپنے بڑے بهائی سید مرتضی پسندیده کی سفارش پر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے1339هـ ق میں اراک روانہ ہوئے تا که عالم ربانی اور فقیه ہوشمند کے پر فیض و برکت سے بہرہ مند ہوں۔

امام خمینی اپنے بڑے بهائی سید مرتضی پسندیده کی سفارش پر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے1339هـ،ق میں اراک روانہ ہوئے تا که عالم ربانی اور فقیه ہوشمند کے پر فیض و برکت سے بہرہ مند ہوں۔
اراک روانگی سے پہلے اصفہان جانے کا اراده بنایا کہ وہاں جاکر اپنے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑہائیں لیکن شیخ عبدالکریم حائری کی شہرت کا ڈنکا جو ان برسوں میں تمام علمی مراکز میں بج رہا تها ان کے سفر اصفہان میں مانع ہوا اور آپ اراک تشریف لائے۔
اراک میں مدرسہ سپہدار میں وارد ہوئے۔ منطق کا ایک دوره کیا نحو کو مرحله کمال تک پہونچایا اور علم بدیع و بیان میں ید طولی حاصل کیا۔ علم کی پیاس اور درس آموزی کے جذبہ و ولولہ نے ان کو ملک کے حالات پر نظر رکهنے سے روکا نہیں اور اس دور کے تلخ حوادث نے آپ کی ہمت کو سست نہیں کیا اور آپ مسلسل معرفت و دانش کے حصول میں لگے رہے؛ چنانچہ اسی طرح جس وقت 19 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ مشروطہ خواه عالم مرحوم سید محمد طباطبائی کی مجلس برسی میں منبر پر گئے تو علم و سیاست دونوں کی بات کی اس پرشکوه مجلس میں امام خمینی کی پہلی مجلس نےہر گوشہ و کنار سے داد تحسین حاصل کی یہ تقریر حقیقت میں ایک سیاسی بیان پر مشتمل تهی۔
آپ اس تقریر کے بارے میں فرماتےہیں:
"مجه سے منبر پر جانے کو کہا گیا، میں نے استقبال کیا اس رات کم سویا، اس لئے نہیں کہ پہلی مرتبہ لوگوں کے سامنے مجلس پڑهنے سےڈر رہا تها بلکہ میں یہ سوچ رہا تها کہ کل مجهے اسی منبر پہ جانا ہے جو رسول الله(ص) سے متعلق  ہے؛ خدا سے استمداد کیا کہ اول سے آخر تک جتنی بار منبر پر جاؤں ہرگز کوئی ایسی بات نہ کہوں جس پر خود عمل پیرانہ ہوں اور یہ میرا خدا سے ایک عہد تها۔
پہلا منبر کچه طولانی ہوگیا لیکن کوئی خستہ و دل ملول نہیں ہوا جب میں نے اپنے دل کی طرف رجوع کیا تو داد  تحسین کی صدائیں بهلی معلوم ہوئیں اور اچهی لگیں اسی وجہ سے دوسری اور تیسری دعوت ٹهکرا دی اور چار برس تک کسی منبر پر نہ گیا"۔
جس دوران روح الله اراک میں آیة الله العظمی حائری کے حوزه میں علمی استفاده کر رہے تهے ملک کو بہت زیاده ناخوشگوار حالات کا سامنا تها۔ رضا خان کی ماه مارچ 1921 میں بغاوت اور سید حسن مدرس کی گرفتاری انهیں ناخوشگوار حالات کا ایک حصہ ہے۔
1340هـ،ق کا سال نوروز خمین،آیة  الله شہید سید مصطفی موسوی خمینی کے فرزند (امام خمینی)کے استقبال کو نکلا اوراس کو جوکہ اراک سے اپنے گهروالوں سے ملاقات کو آرہا تها ،اپنی آغوش میں لے لیا۔روح الله تقریبا تمام سامان و اسباب زندگی اراک سے لیکر واپس ہوئے تهے اور اسی سے پتہ چلتا ہے وه اراک سے مکمل واپسی کا اراده کر کے لوٹے تهے۔
امام خمینی، خمین میں ایام نوروز گزارنے کے بعد قم ہجرت پر آماده ہوئے تا کہ اپنے فاضل دوستوں اور ہم درسوں کا قم میں دیدار کریں اور جس مقصد کا انهوں نے خمین اور اراک سے آغاز کیا تها، قم میں اس کو اتمام کو پہونچائیں۔ کتاب "گنجینه دل" میں مطالعہ کرتےہیں:
آیة الله خلخالی، امام سے نقل کرتےہیں کہ آپ فرمایا:"آقائےحائری کے اراک سے حرکت کرنے کے بعد میں نے قرآن سے استخارہ کیا،یہ آیت نکلی:﴿منها خلقناکم و منها نعیدکم و منها نخرجکم تارة اخری﴾"تم کو خاک سے پیدا کیا اسی میں دوباره تم کو لوٹائیں گے اور اس کے بعد پهر اسے باہر نکالیں گے۔
بلا شک و تردید ادامه تحصیل کے لئے قم کو منتخب کرنے کی بنیادی وجہ آقائے حائری کا اراک سے قم آنا ہے۔


ای میل کریں