تحریر: تبسم عباس نقوی
جنگیں تاریخ کا حصہ رہی ہیں، لیکن ان کے نتائج ہمیشہ میدانِ جنگ میں ہی طے نہیں ہوتے۔ اکثر جنگ بندی کے معاہدے ظاہری طور پر امن کا تاثر دیتے ہیں، لیکن ان کے پیچھے چھپی حقیقت طاقتوروں کی شکست اور کمزوری کی داستان بیان کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی جانب سے جنگ بندی کے فیصلے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی ناقابلِ شکست ہونے کی کہانیاں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
ظالموں کی بے بسی، طاقت کے زوال کی کہانی
اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک دہائیوں سے دنیا میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ، عراق اور افغانستان پر امریکی یلغار اور مشرق وسطیٰ میں ان کا استعماری ایجنڈا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ طاقتیں صرف اپنے مفادات کے لیے دنیا کے امن کو تہس نہس کرتی رہی ہیں، لیکن آج حالات بدل رہے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین، مظلوم کی جیت
اسرائیل برسوں سے فلسطینی عوام کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ طاقتور فوج، جدید ہتھیار اور عالمی حمایت کے باوجود، اسرائیل آج فلسطینی مزاحمت کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے۔ حالیہ تنازعات میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل کے دل میں ایسی گونج پیدا کی، جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں سنی۔ حماس اور دیگر تنظیموں کی جانب سے جدید میزائل حملے اور گوریلا حکمتِ عملی نے اسرائیل کی مضبوط دفاعی لائن کو ہلا کر رکھ دیا۔
امریکہ کی پسپائی، سپر پاور کی شکست
امریکہ کو افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے بعد ذلت آمیز انخلا کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ انخلا اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ فوجی طاقت سے ہر مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ امریکہ کی جانب سے دنیا پر اپنا غلبہ قائم رکھنے کی کوششیں اب کمزور پڑ رہی ہیں اور اس کا اثر اسرائیل جیسے اتحادیوں پر بھی پڑ رہا ہے۔
جنگ بندی، امن یا مجبوریاں؟
اسرائیل اور امریکہ جیسی طاقتیں جب جنگ بندی کا اعلان کرتی ہیں تو یہ محض امن کا پیغام نہیں ہوتا بلکہ ان کی مجبوریوں کا اعتراف ہوتا ہے۔
معاشی دباؤ
جنگوں کی قیمت صرف انسانی جانوں کی قربانی نہیں بلکہ معیشت پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک کے لیے طویل جنگیں ان کے مالی وسائل کو ختم کر رہی ہیں۔ داخلی طور پر عوامی ردعمل اور بین الاقوامی سطح پر مخالفت نے ان طاقتوں کو یہ سمجھنے پر مجبور کیا کہ جنگ جاری رکھنا اب ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
عالمی دباؤ
دنیا اب بدل رہی ہے۔ سوشل میڈیا اور آزاد میڈیا کے ذریعے مظلوموں کی کہانیاں ہر کونے میں پہنچ رہی ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی ویڈیوز اور تصاویر نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے بھی اب اسرائیل کی کھلی حمایت کرنے سے کتراتے ہیں۔
ظالموں کا دھوکہ، جنگ بندی کے پیچھے چھپی حقیقت
جنگ بندی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ظالم طاقتوں نے اپنی جارحیت سے توبہ کر لی ہے۔ یہ ان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ وہ وقتی طور پر جنگ بندی کرکے اپنی شکست کو چھپانے اور مستقبل میں دوبارہ حملے کی تیاری کا موقع تلاش کرتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک کے لیے جنگ بندی ایک عارضی آرام ہے، جہاں وہ اپنی صفیں دوبارہ ترتیب دیتے ہیں۔
مزاحمت کی جیت، مظلوموں کا حوصلہ
اسرائیل اور امریکہ کی جنگ بندی کی ایک اور بڑی وجہ مزاحمت کی کامیابی ہے۔ فلسطین میں نوجوانوں، بچوں اور عورتوں تک نے جس طرح ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، وہ دنیا کے لیے مثال بن چکی ہے۔ یہ مزاحمت صرف جنگی حکمتِ عملی تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک جذبہ ہے، جو ظلم کے خاتمے تک زندہ رہے گا۔
نتیجہ، جنگ بندی کی اصل حقیقت
جنگ بندی کا مطلب اکثر ظاہری امن ہوتا ہے، لیکن اسرائیل اور امریکہ جیسی طاقتوں کی جانب سے جنگ بندی کے پیچھے شکست اور بے بسی کی کہانی چھپی ہوتی ہے۔ یہ مظلوموں کی مزاحمت کا نتیجہ ہے، جو ظالموں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ظالم طاقتیں امن کے بہانے مزید جارحیت کی تیاری کر رہی ہوتی ہیں۔ حق کی جدوجہد ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کا خاتمہ ضرور ہوتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی جنگ بندی ان کے زوال کا آغاز ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مظلوم کبھی بھی اپنی آزادی اور حق کے لیے لڑنا نہیں چھوڑیں گے۔