حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شامی وزیرِاعظم محمد غازی الجلالی نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے رہنما کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں جسے شامی عوام منتخب کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اتوار کی صبح وزیرِاعظم ہاؤس میں موجود ہوں گے اور اقتدار کی منتقلی کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔
محمد غازی الجلالی نے کہا: "ہم ہر شامی شہری کا ساتھ دیں گے جو اپنے ملک کی سالمیت اور ترقی میں دلچسپی رکھتا ہو اور عوام سے درخواست ہے کہ وہ قومی و سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ شام تمام شامی عوام کا ملک ہے اور ایک ایسا ملک بن سکتا ہے جو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے بغیر کسی اتحادی دھڑے کا حصہ بنے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ کسی عہدے یا ذاتی مفادات کے خواہشمند نہیں اور اقتدار کی منتقلی کے لیے تمام سہولتیں فراہم کریں گے۔
اس دوران ابو محمد الجولانی، جو شدت پسند تنظیم تحریر الشام کے سربراہ ہیں، نے اعلان کیا کہ محمد غازی الجلالی اقتدار کی مکمل منتقلی تک حکومتی اداروں اور وزارتوں کا انتظام سنبھالیں گے۔
ذرائع کے مطابق شدت پسند عناصر مختلف سمتوں سے دمشق میں داخل ہوچکے ہیں اور بغیر کسی مزاحمت کے پورے شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے دمشق کے ہوائی اڈے اور سرکاری ریڈیو و ٹی وی کی عمارت پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے شامی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد دمشق میں موجود نہیں ہیں، جبکہ ایک شامی فوجی افسر نے تصدیق کی ہے کہ فوجی قیادت نے سرکاری طور پر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔
آج کل شام عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور سیاسی تبدیلیوں کا محور بن چکا ہے۔ صورتحال اس قدر تیزی سے بدل رہی ہے کہ ماہرین کے لیے اس کا تجزیہ کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
چار اہم وجوہات جنہوں نے مخالفین کو اس تیز رفتار کامیابی تک پہنچایا، درج ذیل ہیں:
1. فوج کی کمزوری اور کرپشن
شام کی فوج گزشتہ دہائی میں مسلسل کمزور ہوتی رہی، اس کی تنظیمی ساخت تحلیل ہوچکی ہے۔ فوج کے جوانوں میں عزم کی کمی اور کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے یہ ایک چھوٹے سے گروہ کے خلاف بھی مؤثر مزاحمت کرنے سے قاصر ہے۔ غیر رسمی اطلاعات کے مطابق فوج کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں نے رشوت کے عوض مخالفین کے ساتھ سازباز کی، جو کہ ایک المناک حقیقت ہے۔
2. عوام کی حکومت اور فوج سے لاتعلقی
شام کے عوام کی طرف سے حکومت اور فوج کی حمایت کا نہ ہونا ایک اور اہم وجہ ہے۔ اس کی بنیاد ملک میں برسوں سے جمع شدہ ساختی اور معاشی مسائل ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں عوام کے لیے روشن مستقبل کی امید مفقود ہوچکی ہے۔
3. غیر ملکی وعدوں پر اعتماد
شامی حکومت نے کچھ علاقائی طاقتوں کے وعدوں پر بھروسہ کیا، جنہوں نے اسے مزاحمت ترک کرنے کے بدلے مدد کی پیشکش کی۔ ان وعدوں نے شام کو مزاحمتی محور سے دور کرکے اندرونی سازشوں کے لیے راستہ ہموار کیا۔
4. غیر ملکی مداخلت اور دہشت گردوں کی حمایت
مغربی ممالک اور علاقائی طاقتوں کی شام کے وسائل پر نظریں اور دہشت گرد گروہوں جیسے داعش، جبھۃ النصرہ اور تحریر الشام کو مدد فراہم کرنا، ملک میں امن اور اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹیں بنے۔
ان تمام عوامل نے مل کر شام کے عوام میں وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا کیا، جس کی وجہ سے وہ موجودہ نظام کی بھرپور حمایت سے باز رہے۔