تحریر: مولانا ڈاکٹر ذوالفقار حسین
آسمان عصمت وطہارت کا مرکز، زمین پر گوہرِ نایاب، فقیروں کی پناہ گاہ، اسیروں کا امن، وہ دہلیز جہاں حاتم طائی بھی سخاوت کی بھیگ مانگ رہا ہے، جہاں یتیموں کی آرزوئیں پوری ہوتی ہیں، جہاں ظلم وبربریت کی تندو تیز آندھیاں خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھیں۔
کتنی عظیم الشان ہے وہ بیٹی جو عظمتوں کی ایک بحر ذخار ہو، جس کا وجود سرکار ختمی مرتبت پیغمبر اسلام صلی اللہ وآلہ علیہ وآلہ وسلم کو نسیم صبح کی طرح آرام پہنچا رہا تھا، جس کی خوشبو سے سرکار کائنات جنت کی یاد میں منہمک ہو جائیں، اسی لئے ایسی عظمت والی خاتون کے لئے فرمایا' فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا میرا ٹکڑا ہے۔ یہاں مقصد رسالت یہی تھا کہ میں نور ہوں، فاطمہ نورانیت کا ٹکڑا ہے، میں نبی ہوں فاطمہ نبوت کا ٹکڑا ہے، میں رسول ہوں فاطمہ رسالت کا ٹکڑا ہے، میں ہادی ہوں فاطمہ ہدایت کا ٹکڑا ہے، میں صادق ہوں، فاطمہ صداقت کا ٹکڑا ہے۔ میں امین ہوں، فاطمہ امانت کا ٹکڑا ہے، میں عابد ہوں، فاطمہ عبادت کا ٹکڑا ہے، میں طاہر ہوں فاطمہ طہارت کا ٹکڑا ہے، میں شافع ہوں فاطمہ شفاعت کا ٹکڑا ہے، میں شجاع ہوں، فاطمہ شجاعت کا ٹکڑا ہے، میں سخی ہوں، فاطمہ سخاوت کا ٹکڑا ہے وہ ایسی پاکدامن خاتون تھیں، جنھوں نے عورتوں کی منزلت کو معراج عطا کی، وہ تاجدار ہل اتیٰ تھیں۔
بانوئے آں تاجدار ھل اتیٰ
مرتضیٰ مشکل کشا شیرِ خدا
آپ کے ایثار کا قصیدہ قرآن کریم پڑھ رہا ہے، سورۂ ھل اتیٰ جس کی گواہی دے رہا ہے، آپ نے ایسا ایثار دکھایا، جس پر خدا بھی ناز کررہا ہے۔ واقعہ بہت مشہور ہے؛ شیعہ اور سنی اکثر راویوں نے نقل کیا ہے کہ نذر کے مطابق حضرت علی علیہ السلام فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام اور ان کی خادمہ " فضہ" نے تین دن مسلسل روزہ رکھا اور تین دن تک فقیر، یتیم، اسیر کو اپنے منہ کا نوالہ پنجتن پاک نے عطا فرمایا، اس وقت خداوند عالم کی طرف سے سورۂ ھل اتیٰ نازل ہوا اور اس سورہ کی یہ آیت "وَیُطۡعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ مِسۡكِینࣰا وَیَتِیمࣰا وَأَسِیرًا"
"إِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِوَجۡهِ ٱللَّهِ لَا نُرِیدُ مِنكُمۡ جَزَاۤءࣰ وَلَا شُكُورًا" اسی ایثار اور قربانی کی ترجمانی کررہی ہے۔ اس واقعے کی تفصیل شیعہ اور سنی تفسیروں میں دیکھی جاسکتی ہے خاص طور سے اہلسنت کے مشہور مفسر " جاراللہ زمخشری" کی تفسیر " کشاف " ہے، جس میں انھوں نے واقعہ کو نقل کیا ہے۔
اس سورہ میں خداوند نے اہلبیت علیہم السلام کا شکریہ ادا کررہا ہے پتہ چلا کہ ایثار فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا شکر الٰہی کا سبب بنا۔
ایک دوسرے مقام پر اسی طرح جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا نے ایثار دکھایا شادی کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کو ایک لباس عطا فرمایا تھا کیونکہ جو لباس پہنے ہوئے تھیں اس میں پیوند لگے ہوئے تھے ۔ اسی موقع پر ایک محتاج ان کے گھر آیا اور پرانے لباس کی درخواست کی۔جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا نے چاہا کہ پرانا پیوند لگا لباس فقیر کو دے دیں لیکن فوراً خیال آیا کہ خداوند فرماتا ہے: { لَن تَنَالُوا۟ ٱلۡبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا۟ مِمَّا تُحِبُّونَۚ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِن شَیۡءࣲ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِیمࣱ }( آل عمران، 92) اس وقت تک تم نیکی کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خداکی راہ میں خرچ نہ کرو۔ اس کے بعد اپنا نیا لباس فقیر کو دے دیا۔ (قاضی نور اللہ شوستری، احقاق الحق، ج 10، ص 401)