فتح کس کی ہوئی؟ خود اسرائیلیوں سے سنیں

فتح کس کی ہوئی؟ خود اسرائیلیوں سے سنیں

اسرائیل اور حزب اللہ میں جنگ بندی کا آج دوسرا روز ہے


ترتیب و تدوین: ایل اے انجم



اسرائیل اور حزب اللہ میں جنگ بندی کا آج دوسرا روز ہے۔ جنوبی لبنان میں جشن ہے، لیکن اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے۔؟ 2006ء میں 33 روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو صیہونی ریاست اور اس کے حلیف عالمی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کو اس جنگ میں کامیاب ٹھہرانے کی سر توڑ کوششیں کی تھیں۔ لیکن حالیہ جنگ بندی کے بعد صیہونی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے سہولت کار میڈیا پر بھی سوگ کا سماں ہے، کیونکہ ان کے پاس فتح کے طور پر دکھانے کو بھی کچھ نہیں۔ خود اسرائیل کے اندر اعلیٰ عہدیداروں اور شمالی بستیوں کے حکام کی جانب سے اس جنگ بندی کو سرنڈر کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

 

مقبوضہ فلسطین کی شمالی بستیوں کے عہدیداروں نے کہا کہ انہیں نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر کوئی بھروسہ نہیں ہے اور نیتن یاہو کے تمام فیصلوں کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ میدان میں اسرائیل پر اپنی مساوات مسلط کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق لبنان کے ساتھ جنگ بندی کے بعد صیہونی حلقوں میں ہل چل ہے اور نیتن یاہو پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ شمالی بستیوں کے عہدیداروں نے اس جنگ بندی کو ایک سکینڈل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ نے اپنی برتری ثابت کر دی ہے اور نیتن یاہو کے تمام فیصلے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔

 

حزب اللہ نے اپنے ڈیٹرنس کو ثابت کر دیا، سابق صیہونی ملٹری انٹیلیجنس چیف

صیہونی حکومت کی ملٹری انٹیلیجنس کے سابق سربراہ تامیر ہیمن نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج لبنان پر حملے میں اپنے کوئی بھی اہداف حاصل نہیں کرسکی اور شمالی علاقوں میں اسرائیلی پناہ گزینوں کی جلد اور محفوظ واپسی کا ہدف بھی حاصل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا: "حزب اللہ کی فورسز نے اسرائیلی فوج کے ساتھ دلیرانہ جنگ اپنی مساوات (ڈیٹرنس) کو ثابت کیا ہے۔ اس سابق صیہونی فوجی اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی لبنان کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو حزب اللہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ سمجھتے ہیں۔ اسی تناظر میں کریات شیمونہ کے میئر "امیچائی سٹرن" نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس قصبے کے باشندوں کو وہاں واپس جانے کی کوئی خواہش نہیں ہے، کہا: شمالی علاقوں کے اسرائیلی ان گاوں کی مانند ہیں، جو قربانی کی جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس حقیقت سے قطع نظر کہ میں کریات شمونہ کا میئر ہوں، میں اس قصبے کو اپنے بچوں کی زندگیوں کے لیے محفوظ نہیں سمجھتا۔ 7 اکتوبر کے سانحے کے بعد، ہم سب جانتے تھے کہ جنوبی لبنان میں ہمارا کیا انتظار تھا۔ شمالی مقبوضہ فلسطین میں میرم قصبے کی علاقائی کونسل کے سربراہ "امیت صفر" نے کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ امن تو لا سکتا ہے لیکن تحفظ کا احساس نہیں۔ کوئی بھی ایسی جگہ نہیں رہنا چاہتا، جہاں سکیورٹی نہ ہو۔ المطلہ سیٹلمنٹ کونسل کے سربراہ "ڈیوڈ عزولائی" نے اسی تناظر میں کہا: "اسرائیلی کابینہ نے حزب اللہ کے ساتھ ایک شرمناک جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے اور شمالی علاقوں کے مکینوں کو اپنی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا ہے۔" صہیونی ٹی وی چینل 12 کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے تاکید کی: ہمیں اسرائیلی کابینہ اور نیتن یاہو پر ذاتی طور پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ حزب اللہ اپنے حملے دوبارہ شروع نہیں کرے گی۔

لیکود پارٹی سے صیہونی حکومت کی کنیسٹ کے رکن امیت حلوی نے بھی لبنان کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر تنقید کی اور کہا: "رائے شماری سے پتہ چلتا ہے کہ لبنان میں اسرائیل کو کوئی مطلق فتح حاصل نہیں ہوئی اور جنگ بندی صرف حزب اللہ کو تقویت دے گی۔"۔ ایک ایسے وقت میں جب لبنانی جنگ بندی کے اعلان کے فوراً بعد جنوبی لبنان میں اپنے گھروں کو چلے گئے، شمالی مقبوضہ فلسطین میں آباد کاری کی انجمن کے سربراہ موشے ڈیوڈوچ نے کہا کہ شمالی علاقوں میں اسرائیلیوں کی واپسی کے لیے کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے، جبکہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے شمال میں سکیورٹی یقینی بنانا اور یہاں پناہ گزینوں کی واپسی لبنان کے خلاف جنگ کے اہم مقاصد میں سے ایک تھا۔

اس صہیونی اہلکار نے مزید کہا: جنگ بندی معاہدے پر دستخط کا دن شمالی علاقوں میں اسرائیلیوں کے لیے ایک افسوسناک اور شرمناک دن تھا۔ اس معاہدے کو کسی بھی طرح سے فتح نہیں سمجھا جاتا، بلکہ یہ حزب اللہ کے حق میں ہی تھا۔ اسی تناظر میں صیہونی حکومت کی فوج کے سابق ترجمان Ronen Manels نے نیتن یاہو کی فتح کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حزب اللہ کو سرحدوں سے 15 کلومیٹر دور منتقل کر دیا گیا ہے اور یہ جماعت اب لیطانی کے جنوب میں نہیں رہی۔ یہ ایک فریب اور جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "جنوبی لبنان کے دیہات کے باشندے دراصل حزب اللہ کی افواج ہیں اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔" عبرانی اخبار Yediot Aharanot نے ایک رپورٹ میں کہا: "لبنان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ایک برا لیکن ضروری واقعہ تھا اور ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

 

جنگ بندی کا معاہدہ برا ہے لیکن کوئی اور آپشن ہی نہیں

اخبار نے لکھا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ لبنان کو حزب اللہ سے نجات دلانا ممکن نہیں ہے اور حزب اللہ سے متعلق تمام چیزوں جیسے سرنگیں یا ہتھیاروں کے کارخانے وغیرہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اس صہیونی اخبار نے تاکید کی: "اسرائیل کے شمالی علاقوں (مقبوضہ فلسطین) کے باشندوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے اور لبنان کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ کوئی مثالی واقعہ نہیں ہے، ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ اس صورت حال میں کوئی مثالی معاہدہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ نہ تو حزب اللہ کو لبنان سے نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی حماس کو غزہ سے۔ اخبار نے کہا: "ہمیں سچائی کو قبول کرنا چاہیئے اور جان لینا چاہیئے کہ کوئی مطلق فتح نہیں ہے اور نہ کبھی ہوگی۔ لہٰذا ہم کیا کرسکتے ہیں کہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنا شروع کریں، تاکہ جو لوگ واپس آنا چاہتے ہیں، ان کو رہنے کے لیے جگہ مل سکے۔

یقیناً، یہ واضح ہے کہ ہر کوئی اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے گا، کم از کم پہلے مہینوں میں اور جنگ بندی کے بعد پہلے سال میں بھی۔ اس عبرانی میڈیا نے اس بات پر زور دیا کہ اب سب سے اہم بات حماس کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ ہے اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے بغیر ہم معمول کی زندگی کی طرف واپس نہیں جا سکتے۔ شمالی مقبوضہ فلسطین میں مرگلیوٹ سیٹلمنٹ کونسل کے سربراہ نے کہا کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ایک بڑا اسکینڈل تھا اور نیتن یاہو جو کچھ بھی کرتا ہے، وہ ناکام ہے۔ ایک سیاسی تجزیہ کار اور صیہونی ٹی وی چینل 11 کے رپورٹر سلیمان مسعود نے بھی تبصرہ کیا: "نہ صرف سیاسی صورتحال بلکہ اسرائیل کی فوجی صورتحال نے اسے لبنان کے ساتھ جنگ بندی کی طرف جانے پر مجبور کیا۔ اب ہم سردیوں کے موسم میں داخل ہو رہے ہیں اور امریکہ نے کچھ عرصے سے اسرائیل کو وہ تمام فوجی جنگی سازوسامان فراہم نہیں کیا ہے، جس کی وہ درخواست کرتا ہے اور اسرائیل کو غیر ملکی ہتھیاروں کی برآمدات پر بھی وسیع پابندی عائد ہے۔

 

صہیونی آرمی ریڈیو کے فوجی رپورٹر ڈورون کودوش نے بھی کہا: "جنگ بندی کا معاہدہ ایک بری چیز تھی اور اس میں خامیاں ہیں، لیکن فوجی حکام یہ جنگ بندی چاہتے تھے۔ صیہونی حکومت کے چینل 13 کے عسکری امور کے تجزیہ کار ایلون بن ڈیوڈ نے اس حوالے سے کہا: "اسرائیل کے سکیورٹی ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ لبنان کے ساتھ معاہدہ کوئی مثالی معاہدہ نہیں ہے اور فوج نے شروع سے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ حزب اللہ کی پوری فوجی طاقت کو تباہ کرسکتی ہے۔ صیہونی حکومت کی ملٹری انٹیلی جنس برانچ کے سابق سربراہوں میں سے ایک "آموس ملکا" نے اس سلسلے میں کہا: "لبنان کے ساتھ جنگ تین طریقوں سے ختم ہوسکتی تھی: مجوزہ جنگ بندی معاہدہ، سکیورٹی بیلٹ، یا اسرائیل کے اندرونی طور پر۔ انہوں نے مزید کہا: ظاہر ہے کہ تیسرا طریقہ یعنی حزب اللہ کی تباہی تک جنگ ایک ناممکن آپشن ہے، کیونکہ اس مقصد کے لیے اسرائیل کو کوئی بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی اور نہ ہی اسرائیل کے پاس ایسا کام کرنے کی فوجی طاقت ہے۔

 

نیتن یاہو نے اکتوبر میں ہی جنگ بندی کی درخواست کی تھی

ینیٹ نیوز سائٹ نے بدھ کی شام شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا کہ لبنان کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے انجینئر اور امریکہ خصوصی ایلچی آموس ہوچسٹین نے امریکہ کی یہودی برادری کے نمائندوں کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میٹنگ میں انکشاف کیا کہ گذشتہ اکتوبر کے آخر میں نیتن یاہو نے مجھے اسرائیل آنے کے لیے کہا، کیونکہ اس نے جنگ بندی کے بارے میں کچھ فیصلے کیے ہیں۔ ہاکسٹین کے مطابق، میں نے ان کے تبصروں کو سنا اور آخرکار ہم ایک ایسے فریم ورک پر پہنچ گئے، جو دونوں فریقوں کے لیے موزوں ہو اور اس کے بعد سے ہم نے وسیع مذاکرات شروع کیے جو ایک معاہدے پر منتج ہوئے۔

 

صیہونیوں کو پہنچنے والے بھاری نقصانات کا ابتدائی تخمینہ

دوسری جانب اسرائیل کے 12 ٹی وی چینل نے کہا ہے کہ گذشتہ ستمبر میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں اضافے کے بعد سے اب تک 124 اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ فوج کے ریڈیو نے اطلاع دی ہے کہ حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں 22,715 بار سائرن بجے جن میں سے 16,198 راکٹ حملوں اور 6,517 بار ڈرون حملوں کی وجہ سے ہوئے۔ عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت نے بھی رپورٹ کیا کہ ٹیکس آفس کی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں شمالی اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں 9000 سے زائد عمارتوں اور 7000 کاروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ صیہونی ٹی وی چینل 13 کی طرف سے کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 61 فیصد سے زیادہ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کو شکست نہیں دے سکتا اور ان میں سے 67 فیصد نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل غزہ میں جنگ ختم کرے اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کو واپس لائے۔

 

جنگی بندی کے بعد حزب اللہ کا پہلا بیان اور صیہونی فوج کی تباہی کے اعدادوشمار

لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے 27 نومبر کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے آغاز کے بعد اپنا پہلا بیان جاری کیا، جس میں انکشاف کیا گیا کہ اس کی افواج نے لبنان کے اندر دو ماہ سے کم عرصے کی لڑائیوں میں کم از کم 130 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور تقریباً 1,250 کو زخمی کیا۔ 8 اکتوبر 2023ء سے حزب اللہ کے 4,638 ویں بیان میں کہا گیا ہے کہ "مزاحمت 13 ماہ سے زائد عرصے تک اپنے عہد اور جدوجہد پر ثابت قدم رہی اور فریب خوردہ دشمن کے خلاف فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی، جس سے وہ اپنے عزم کو کم کرنے یا اس کے عزم کو توڑنے کے قابل نہیں رہا۔" اسلامی تحریک نے انکشاف کیا کہ اس کے فوجیوں نے 17 ستمبر سے لے کر اب تک 1,666 فوجی کارروائیاں کیں۔ یعنی روانہ کہ بنیاد پر 23 آپریشنز۔ اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت نے 105 خصوصی "خیبر" آپریشنز شروع کیے، جو شہید سید حسن نصراللہ کے قتل کے بعد شروع ہوئے۔

ان خصوصی کارروائیوں میں جدید بیلسٹک راکٹوں، کروز میزائلوں اور اعلیٰ درجے کے حملہ آور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے اندر 150 کلومیٹر تک گہرائی میں حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ مزاحمت کا کہنا ہے کہ لبنان کے اندر اس نے 59 مرکاوا ٹینک، 11 فوجی بلڈوزر، دو ہموی، دو بکتر بند گاڑیاں اور دو پرسنل کیریر تباہ کر دیئے۔ ایئر آپریشنز کے دوران نے 6 ہرمیس 450 ڈرون، 2 ہرمیس 900 ڈرون اور ایک کواڈ کاپٹر کو بھی گرایا۔ حزب اللہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ "لبنانی علاقوں میں اسرائیلی زمینی کارروائی کے تمام عرصے کے دوران حملہ آور فوج کسی بھی فرنٹ لائن ٹاؤن پر قبضہ کرنے یا آباد کرنے میں ناکام رہی۔" انہوں نے مزید کہا کہ تل ابیب ایک الگ فوجی اور سکیورٹی زون قائم کرنے میں ناکام رہا اور راکٹ اور ڈرون لانچوں کو روکنے میں بھی بری طرح ناکام رہا۔

 

بیان میں مزید کہا گیا "یہ میدان جنگ میں مجاہدین کی ثابت قدمی کا براہ راست نتیجہ ہے، جنہوں نے جارحیت کے آخری دن تک محاذوں اور سرحدی دیہاتوں سے مقبوضہ فلسطین میں دشمن کے ٹھکانوں پر حملہ جاری رکھا۔" حزب اللہ نے اسرائیلی زمینی حملے کے دوسرے مرحلے کو محض "سیاسی اور میڈیا کا اعلان قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن جنوبی محاذ پر دوسرے درجے کے شہروں میں پیش قدمی کرنے سے قاصر تھا۔" یہاں واضح رہے کہ 12 نومبر کو اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ فوج نے "جنوبی لبنان میں زمینی آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع کیا ہے، 36 ویں ڈویژن نے حزب اللہ کی دوسری دفاعی لائن کی طرف پیش قدمی کی" تاکہ جنوبی قصبے خیام پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

حزب اللہ نے بدھ کے روز انکشاف کیا کہ اسرائیل کو خیام میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جہاں سے وہ تین بار پیچھے ہٹ گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "مغربی سیکٹر کے قصبوں بیادہ اور شمع کی طرف پیش قدمی کرنے کی واحد کوشش تھی، جو دشمن کی فوج کے ٹینکوں اور ایلیٹ سپاہیوں کا قبرستان بن گئے تھے، مزاحمت کی شدید ضربوں کے بعد یہاں سے پیچھے ہٹ گئے۔" حزب اللہ کے مطابق زمینی حملے سے پہلے دریائے لیطانی کے جنوب میں 300 سے زیادہ دفاعی لائنیں قائم کی گئی تھیں۔ بیدہ اور خیام میں جو کچھ ہوا، وہ اس کا بہترین ثبوت ہے۔"

 

"ہمارے ہاتھ ٹریگر پر رہیں گے"

اسلامی مزاحمت نے اپنے بیان میں مزید کہا: "جیسا کہ امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا دن قریب آرہا ہے، لبنانی مزاحمت اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو یاد دلا رہی ہے کہ ہم دشمن کے عزائم اور حملوں سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار رہیں گے۔ حزب اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ لبنان کے سرحدی علاقے سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کی کڑی نگرانی کرے گی، جسے 60 دنوں کے اندر مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔" حزب اللہ نے واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ "لبنان کی خود مختاری کے دفاع اور اس کے عوام کے وقار اور عزت کی خاطر ہمارے ہاتھ ٹریگر پر رہیں گے۔"

 

ای میل کریں