تحریر: محمد قادری
ہفتے کی صبح صیہونی حکومت نے تین مرحلوں پر مشتمل آپریشن کے دوران اسلامی ایران کی حدود میں کچھ فوجی اہداف پر حملہ کیا، تاکہ وعدہ صادق 2 آپریشن کے ردعمل کا دعویٰ پورا ہو سکے۔ صیہونی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کیخلاف ایرانی حملے کے بعد سے ہی پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی تھی تاکہ نفسیاتی طور پر ایک ایسی فضا بنا دی جائے کہ جیسے کامیابیاں سمیٹ لی گئی ہوں، لیکن انہوں نے بلند و بانگ دعووں کے ذریعے جن اھداف کو حاصل کرنیکا شور مچایا تھا اس میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے۔
اس حوالے سے چند نکات کا جائزہ ضروری ہے:
1۔ صیہونی حکومت نے یہ آپریشن اس نیت کے ساتھ انجام دیا کہ ایک تو آپریشن وعدہ صادق 2 کے نتیجے میں ہونے والے بھاری نقصانات کے بعد پیدا ہونے والے نفسیاتی دباؤ سے باہر نکلا جا سکے" اور دوسرا یہ کہ ایران کو یہ پیغام دینا کہ وہ براہ راست اقدام کی توانائی رکھتے ہیں۔
2۔ دوسرا یہ کہ حالیہ ہفتوں میں صہیونیوں نے نفسیاتی جنگی پروپیگنڈا کے ذریعے جو جن اھداف کا نشانہ بنانے اور جو مقاصد حاصل کرنیکا دعویٰ کیا تھا، ان کو کسی بھی طرح پورا نہیں کیا جا سکا، جس کی منطقی طور پر کم از کم تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول یہ ایران کی سرزمین کے اندر فوجی آپریشن کرنے میں ناکامی۔ دوسرا یہ کہ صیہونی حکومت کے مغربی اور علاقائی حامیوں کو ضروری انتباہات کے ذریعے باور کروانا کہ ایران کیخلاف اسرائیل سے کسی قسم کا تعاون سنشگین نتائج کا باعث بنے گا، بالخصوص وزیر خارجہ کے سفارتی اقدامات کا موثر ثابت ہونا۔ تیسرا یہ کہ تہران کے رد عمل کے خوف سے مغربی طاقتوں کا صیہونیوں کو ایران کے خلاف کنٹرولڈ آپریشن کرنے کا کہنا۔
3۔ تیسرا بالکل اسی طرح جیسے دوسرے نکتے میں ذکر کیا گیا کہ نیتن یاہو نے حکومت سے منسلک تھنک ٹینکس کی ہدایت پر اپنی توانائیوں کا زیادہ حصہ میڈیا اور نفسیاتی آپریشنز پر صرف کیا۔ جس کے ذریعے بزعم خود کوشش کی گئی کہ اسرائیلی رائے عامہ، علاقائی ممالک، بین الاقوامی برادری اور بالخصوص ایرانی عوام کو باور کروایا جا سکے کہ صیہونی افواج حملے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تاکہ ایران کو وعدہ صادق 2 جیسے حملوں کو دہرانے سے باز رکھا جاسکے۔ انہوں نے تمام تر ذرائع سے پوری پروپیگنڈا مشین کو حملے سے پہلے، حملے کے دروان اور حملے کے بعد فعال رکھا کہ یہ ہر طرف یہ میسج پہنچ جائے کہ اسرائیل اس معرکے میں ایران کو شکست دے چکا ہے اور ایران کے پاس دوبارہ ایسا کرنیکی استعداد نہیں رکھتا۔
4۔ مغرب اور اسرائیل کے متضاد دعووں کے برعکس یہ واضح ہے کہ امریکہ ہی اصل کھلاڑی ہے۔ گذشتہ 13 مہینوں سے امریکہ کی مالی امداد، ہتھیاروں کی فراہمی، سینٹ کام کی پشت پناہی، لاجسٹک اسپورٹ اور انٹونی بلنکن کی اسرائیل اور خطے میں موجودگی یہ ثابت کرتی ہے۔ [اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایران کے مقابلے میں صیہونی ناجائز ریاست اپنے طور پر کچھ بھی کرنیکے قابل نہیں۔] نتیجہ یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں رونما ہونے والے واقعات سے یہ عیاں ہے کہ بلاشبہ ان حالات کی جڑیں وائٹ ہاؤس کے نقطہ نظر سے جڑی ہوئی ہیں اور اس حوالے سے کوئی بھی ایسا خیال کہ تل ابیب اور واشنگٹن کے مقاصد میں فرق ہے، ایران کیخلاف ایک اسٹریٹجک غلطی شمار ہوگی۔ وائٹ ہاؤس کے زرخرید جان لیں کہ ان اقدامات کے اثرات ان پر اور انکے مفادات پر منفی انداز میں مرتب ہونگے۔