شہید سید ہاشم صفی الدین

شہید سید ہاشم صفی الدین

سید ہاشم کی شہادت نے مقاومتی تحریک کو نیا جوش و ولولہ بخشا ہے اور ان کے خون کی قیمت پر آزادی کے خواب کی تکمیل کی راہیں مزید ہموار ہوں گی

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

 

حوزہ نیوز ایجنسی| سید ہاشم صفی الدین کی شہادت، راہِ مقاومت کو جاری رکھنے کا عزم اور تحریک ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ان کی زندگی اور شہادت دونوں میں نظر آتی ہے۔ سید ہاشم صفی الدین نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ مقاومت کے لیے وقف کیا اور ان کی قربانی دشمن کے لیے ایک ناقابلِ برداشت ضرب ثابت ہو گی۔ ان کی شہادت نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو ثابت کر دیا کہ مقاومت کی راہ میں ہر قدم، ظلم اور جبر کے خلاف ایک نیا محاذ کھولتا ہے۔

 

سید ہاشم کی شہادت نے مقاومتی تحریک کو نیا جوش و ولولہ بخشا ہے اور ان کے خون کی قیمت پر آزادی کے خواب کی تکمیل کی راہیں مزید ہموار ہوں گی۔ ان کی شہادت سے دشمن کو یہ پیغام ملا کہ مقاومت کے سپاہی کبھی شکست تسلیم نہیں کرتے اور ہر شہادت ایک نیا عہد جنم دیتی ہے۔ ان کی شہادت نے مقاومت کے پرچم کو اور بھی بلند کر دیا ہے اور ان کے پیروکاروں کو ایک نیا حوصلہ اور عزم دیا ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں۔

 

یہ شہادت درحقیقت راہِ مقاومت کو ایک نئی تحریک دے رہی ہے، جو نہ صرف ایک قیادت کی قربانی ہے بلکہ ہر اس شخص کے لیے مشعلِ راہ ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہتا ہے۔

 

میڈیا پر جاری ویڈیوز، تصاویر، رپورٹس اور پوسٹس میں شہید سید ہاشم صفی الدین کے بارے بتایا گیا ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان کی ایگزیکٹو کونسل کے معتبر سربراہ تھے، جنہیں حزب اللہ کی دوسری اہم ترین شخصیت اور شہید سید حسن نصر اللہ کا جانشین تصور کیا جاتا تھا، حالانکہ اس کا باضابطہ اعلان کبھی نہیں کیا گیا۔

 

انہوں نے 1982ء میں حزب اللہ کی بنیاد سے ہی اس عظیم تحریک کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور ایگزیکٹو کونسل کی سربراہی کے ذریعے جماعت کی معاشی و سماجی سرگرمیوں کی نگہداشت کی۔ 2017ء میں، وہ امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیے گئے، جو ان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور حزب اللہ کے ساتھ ان کی وابستگی کا ثبوت ہے۔

 

سید ہاشم صفی الدین، شہید سید حسن نصر اللہ کے خالہ زاد بھائی، 1964ء میں جنوبی لبنان کے ایک معروف خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1980ء کی دہائی میں، انہوں نے اپنے عزیز حسن نصر اللہ کے ہمراہ دینی علوم کی تحصیل کے لیے قم کا سفر کیا، جہاں انہوں نے علم و حکمت کے نور کو حاصل کیا۔

 

1983ء میں، انہوں نے محمد علی الامین کی دختر سے شادی کی، جو لبنان کی اسلامی شیعہ کونسل کے قانون ساز مجلس کے رکن تھے۔ یہ رشتہ نہ صرف ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا بلکہ انہیں سیاسی اور سماجی میدان میں مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ بھی بنا۔

 

1994ء میں، سید حسن نصر اللہ نے ہاشم صفی الدین کو حزب اللہ کی بیروت ریجن کا سربراہ مقرر کیا۔ اس کے بعد 1995ء میں، انہوں نے جہاد کونسل کی سربراہی سنبھالی، جو حزب اللہ کی عسکری سرگرمیوں کی ذمہ داری سنبھالتی تھی۔ ان کی رہنمائی میں حزب اللہ نے اپنی طاقت کو مزید مستحکم کیا، جو ان کی شجاعت اور دانشمندی کا عکاس ہے۔

 

سید ہاشم صفی الدین کی زندگی قربانی، استقامت اور جدوجہد کی ایک شاندار مثال ہے۔ ان کی شہادت نے حزب اللہ اور اسلامی مقاومت کے شجرہ طیبہ کو مزید مضبوط کیا اور وہ ان کے نقش قدم پر چلنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ای میل کریں