اربعین امام حسین (علیہ السلام) کے دن 25 اگست 2024 کو اسٹوڈنٹ انجمنوں نے تہران کے حسینیہ امام خمینی میں جمع ہوکر عزاداری کی۔ اس کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز ظہرین ادا کی گئی۔ دونوں نمازوں کے درمیان رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے مختصر تقریر کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گزشتہ برسوں کے اربعین کی طرح آج بھی آپ عزیز نوجوانوں نے اس امام بارگاہ کو اپنی تشریف آوری کے ذریعے اور اپنے پاکیزہ احساسات و جذبات سے منور کر دیا۔ آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ کی اس تشریف آوری کا اور اس پروگرام کا جو آپ نے بہترین انداز میں انجام دیا۔ پروگرام بہت اچھے تھے۔ ترانہ اچھا تھا۔ تلاوت قرآن بہت اچھی تھی۔ جو زیارت پڑھی بہت اچھی تھی۔ تقریر بہت اچھی تھی۔ جناب مطیعی کا پروگرام (1) بہت اچھا تھا۔ بحمد اللہ وہ سارے پروگرام جو آپ نے یہاں پیش کئے پر مغز، بامعنی اور سبق آموز تھے۔ زیارت عاشورا پڑھتے وقت آپ امام حسین علیہ السلام سے کہتے ہیں: یا ابا عبد اللہ! انّی سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم الی یوم القیامۃ۔ (2) قیامت کے دن تک۔ یعنی کیا؟ یعنی یہ کارزار ختم ہونے والا نہیں ہے۔ حسینی محاذ اور یزیدی محاذ کے ما بین کارزار۔ یہ جنگ جاری ہے۔ حسینی محاذ نے اپنا تعارف کرا دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے اسی سفر کربلا میں، کئی جگہوں پر واضح کر دیا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، ان کا ہدف کیا ہے؟ انہوں نے فرما دیا: انّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ قال منّ رَأَى سلطانا جائرا ، یہ معاملہ ظلم کا معاملہ ہے، جور و ستم کا معاملہ ہے۔ مستحلا لحرمات اللہ، ناکثا لعھد اللہ یعمل فی عباد اللہ بالجور و العدوان۔ (3) معاملہ یہ ہے۔ یہ حسینی محاذ ہے جو ظلم کے مقابلے میں کام کرتا ہے، جہاد کرتا ہے۔ اس کے مد مقابل ظلم کا محاذ ہے، جور کا محاذ ہے، االلہ سے کیا ہوا عہد توڑ دینے والوں کا محاذ ہے۔
آج آپ دنیا میں یہ دیکھ رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے دور سے قبل بھی دو محاذوں کی یہ صورت حال موجود تھی، آپ کے بعد بھی موجود تھی اور آج بھی موجود ہے اور آخر تک موجود رہے گی۔ ان تمام ادوار میں: انّی سلم لمن سالمکم، ہر اس شخص کے ساتھ جو آپ کے محاذ میں شامل ہے میرا اچھا رشتہ ہے، حرب لمن حاربکم، اور جو بھی آپ کے محاذ کے خلاف بر سر پیکار ہے اس کے خلاف میں جنگ کروں گا۔ اس جنگ کی کئی شکلیں ہیں۔ شمشیر و نیزے کے دور میں الگ انداز سے ہوتی ہے، ایٹمی دور اور آرٹیفیشیل انٹیلیجنس وغیرہ کے دور میں کسی اور شکل میں ہے، لیکن ہے۔ شعر و قصیدے اور حدیث و بیان اقوال کے دور میں کسی انداز سے اور انٹرنٹ اور کوانٹم وغیرہ کے دور میں کسی اور طرح سے ہے۔ مگر یہ جنگ ہے۔
انسان کی طالب علمی کی زںدگی میں کسی انداز سے ہے اور عہدیدار اور حکام کی صف میں شامل ہو جانے کے زمانے میں کسی اور انداز سے ہے۔ تمام حالات میں ہے۔ حرب لمن حاربکم فراموش نہیں ہونا چاہئے۔ حرب لمن حاربکم سے ہمیشہ بندوق اٹھا لینا مراد نہیں ہے۔ اس کا مفہوم صحیح سوچ رکھنا بھی ہے، صحیح بات کرنا ہے، صحیح شناخت کرنا اور عین نشانے پر وار کرنا ہے۔ یہ حرب لمن حاربکم اس طرح ہے۔ آپ کو علم ہو کہ فریضہ کیا ہے۔ آپہ کو شناخت ہو کہ کس راہ پر چلنا ہے۔ اگر ہم نے اس انداز سے سوچا، اس انداز سے شناخت حاصل کی، اس طرح ہمت و حوصلے سے کام لیا تو زندگی با معنی بن جائے گی۔ زندگی با ہدف بن جائے گی۔ پیسہ اس لايق نہیں ہے کہ اسے زندگی کا مقصد بنا لیا جائے۔ عہدہ و منصب اور سماجی مقام و رتبہ اس سے حقیر تر ہیں کہ ہدف زندگی قرار پائیں۔ زندگی کا ہدف بندگی ہے، اللہ تک پہنچنا ہے اور اس کا راستہ یہی ہے۔ سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم۔
اپنے دور شباب کی قدر کیجئے۔ آپ کے سامنے بڑا وسیع میدان ہے۔ ان شاء اللہ 70 سال بعد 60 سال بعد آپ اس دنیا میں موجود ہوں گے اور کام کریں گے۔ اس موقع سے استفادہ کیجئے۔ اس طولانی مدت کے لئے منصوبہ بندی کیجئے۔ منصوبہ بندی کو درست اور صحیح ڈگر پر رکھنے کے لئے غور کیجئے۔ تفکر اور طرز فکر کو صحیح رکھنے کے لئے قرآن سے آشنائی حاصل کیجئے۔ قرآن پڑھئے، اس پر غور کیجئے۔ جن لوگوں نے آپ سے قبل اور آپ سے زیادہ غور و فکر کیا ہے ان سے سیکھئے۔ دوسروں سے سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں، افتخار ہے۔ ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کیجئے۔ زندگی کے آخری لمحے تک سیکھئے۔ غور کیجئے، مطالعہ کیجئے، شناخت حاصل کیجئے۔ جہاں اقدام کی ضرورت ہے اقدام کیجئے۔ اقدام کبھی تجربہ گاہ میں کرنا ہوتا ہے، کبھی کلاس روم میں کرنا ہوتا ہے، کبھی یونیورسٹی کے اندر کرنا ہوتا ہے، کبھی سماجی ماحول کے اندر اقدام کرنا ہوتا ہے، کبھی سیاسی میدان میں اقدام کرنا ہوتا ہے، کبھی کربلا کا راستہ طے کرنے کا اقدام ہے اور کبھی فلسطین کا راستہ طے کرنے کا اقدام کرنا ہوتا ہے۔ کبھی اسلام کے اعلی اہداف کے لئے اقدام کرنا ہوتا ہے۔
اسلامی انقلاب نے ہمارے لئے یہ راستہ کھول دیا ہے۔ میرے عزیزو! میرے جوانو! اس زمانے کو آپ نے نہیں دیکھا، آپ اس پر خوش ہوئیے کہ وہ دور نہیں دیکھا۔ ہم نے وہ دور دیکھا ہے۔ بہت برا دور تھا، بہت دشوار دور تھا۔ سیاہ دور تھا، مایوسی کا دور تھا۔ انقلاب نے ورق پلٹ دیا۔ انقلاب نے راستہ کھول دیا۔ انقلاب نے ہمیں موقع فراہم کیا۔ ہم اس موقع سے استفادہ کر سکتے ہیں، آپ استفادہ کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ استفادہ نہ کیا جائے۔ اگر استفادہ نہ کیا تو خسارہ ہے۔ اگر استفادہ کیا تو کامیابی ہے۔
قد افلح المومنون۔
ان شاء اللہ کامیاب و کامران رہیں!
و السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1 ذاکر اہل بیت میثم مطیعی کا بیت
2 کام الزیارات جلد 1 صفحہ 176
3 بحار الانوار جلد 44 صفحہ 381 (قدرے فرق کے ساتھ)
4 سورہ مومنون آیت 1