امریکی‎ جامعات میں اسرائیل مخالف منفرد تحریک

امریکی‎ جامعات میں اسرائیل مخالف منفرد تحریک

امریکی‎ جامعات میں ان دنوں ایک منفرد تحریک برپا ہے

تحریر: محمد عامر (رفاہ یونیورسٹی)

 

امریکی‎ جامعات میں ان دنوں ایک منفرد تحریک برپا ہے۔ ملک بھر کی جامعات میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ جامعات میں زیرتعلیم طلبا  کا مطالبہ ہے کہ انہیں اسرائیلی قبضے کی حمایتی کمپنیوں کے بارے میں بتایا جائے جوان کے ادارے کی مالی معاونت اورفنڈنگ کرتی ہیں۔ جامعات میں جاری اس تحریک کا نعرہ disclose, divest ہے، یعنی ان کمپنیوں کے ساتھ کئی گئی سرمایہ کاری کے بارے میں بتایا جائے اور یہ سرمایہ کاری واپس لی جائے کیونکہ یہ کمپنیاں غزہ کی جنگ سے مالی فوائد حاصل کررہی ہیں۔ امریکی جامعات کس سطح پر کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کرتی ہیں اسے سمجھنے کے لیے صرف کولمبیا یونیورسٹی کا سال ۲۰۲۳ کا بجٹ دیکھا جائے تو یونیورسٹی آمدن کا تخمینہ ۶.۲ ارب ڈالر اور اخراجات ۵.۹ ارب ڈالر ہیں۔ یہ صرف ایک یونیورسٹی کا ایک سال کا بجٹ ہے، جب کہ پاکستان آئی ایم ایف سے اگلے تین سال کا جو معاشی پیکج حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے اس کا حجم ۶ سے ۷ ارب ڈالر کے برابر ہوگا۔

 

‎امریکی جامعات میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرے گزشتہ چھ ماہ سے ہورہے ہیں لیکن یہ تحریک اُس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی جب ۱۸ اپریل کو نیویارک شہر کی پولیس نے کولمبیا یونیورسٹی سے ۱۰۰ سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا۔ اس کے بعد امریکہ بھر میں جامعات اور کالجز کے طلبا کولمبیا یونیورسٹی کے طلبا سے اظہار یکجہتی کے لیے نکل آئے ہیں۔ نیویارک یونیورسٹی کے علاوہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، ایم آئی ٹی، یونیورسٹی آف مشیگن، ایمرسن کالج ،ٹفٹس، ہارورڈ اور برنارڈ کالج میں طلبا خیمہ زن ہیں اور غزہ کی حمایت اور کولمبیا یونیورسٹی کے طلبا سے اظہار یکجہتی کے طور پر پرُامن مظاہرے کررہے ہیں۔

 

اس تحریک کا انداز انتہائی متاثرکن اور غیر روایتی ہے جس نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ مظاہرین کی جانب سے جامعات میں خیمے لگائے گئے ہیں۔ ہریونیورسٹی میں نمایاں مقام پر ایک خیمہ بستی سجائی گئی ہے۔ ان خیمہ بستیوں میں طلبا کھانے پینے کی چیزوں، کمبل، فیس ماسک اور دیگر سامان کے ساتھ موجود ہیں۔ جہاں چوبیس گھنٹے گہما گہمی ہے، مظاہرین اسرائیل کی مالی مدد کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ کی گئی سرمایہ کاری واپس لینے تک خیمہ بستیاں ختم نہ کرنے کا عہد کئے ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں میں مسلمان، عیسائی، یہودی تمام طلبا موجود ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کی خیمہ بستی میں یہودی تہوار ’’پاس اوور‘ کے موقع پر موجود ایک یہودی طالب علم کیمرون جونز نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ" میں یہودی ہوں اور میرے لیے پاس اوور کا دن استقلال اور ثابت قدمی کی نشانی ہے اور یہ خیمہ بستی انہی دو باتوں کی نشاندہی کررہی ہے۔

 

‎۲۲ اپریل کو کولمبیا یونیورسٹی کے اساتذہ نے گرفتار اور معطل کیے گئے طلبا کے حق میں مظاہرہ کیا۔ اساتذہ نے یونیورسٹی کی صدر نعمت شفیق کی طرف سے پولیس کو یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت دینے کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ طلبا پر بنائے گئے غیرقانونی مقدمات ختم کیے جائیں۔ اساتذہ نے نعمت شفیق سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ مظاہرے میں موجود تاریخ کے پروفیسر کرسٹوفر براؤن نے کہا کہ "میں یہاں اس لیے آیا ہوں کیوں کہ جو کچھ ہورہا ہے میں اس کے بارے میں فکرمند ہوں، ۱۸ اپریل کا دن کولمبیا یونیورسٹی کی تاریخ میں ایک شرمناک دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا"۔

 

‎واضح رہے امریکہ کا اظہار رائے کا قانون ہر شخص کو پرامن مظاہرے کا حق دیتا ہے، مگر اس پرامن تحریک کو مسلسل antisemitism یعنی یہود مخالف تحریک کا رنگ دیا جارہا ہے تاکہ اسرائیل پر ہونے والی تنقید کو نفرت اور تعصب سے جوڑ کر اس تحریک کو بے اثر کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب صدر بائیڈن سے طلبا کی ریلیوں اور مظاہروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے ان مظاہروں کو یہود مخالف قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔ ایک طرف امریکہ آزادی رائے کا چیمپئن ہونے کا دعوے دار ہے اور دوسری طرف کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نعمت شفیق اس وقت صرف اس وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہیں کہ وہ یونیورسٹی میں اسرائیل مخالف مظاہرے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔

امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانس نے گزشتہ روز کولمبیا یونیورسٹی کا دورہ کیا اور یونیورسٹی کی صدر نعمت شفیق سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا کیونکہ ان کے خیال میں یونیورسٹی انتظامیہ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ بعدازاں مائیک جانسن نے یونیورسٹی میں زیرتعلیم یہودی طلبا سے ملاقات بھی کی۔ اس موقع پر جانسن نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشیدہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے نیشنل گارڈ کے دستے بھی جامعات میں طلب کیے جاسکتے ہیں۔ مائیک جانسن کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم پبلک افئیرز کونسل نے کہا کہ جامعات کے طلباکی گرفتاریوں سے ملک بھر میں ایک خطرناک روایت قائم کی گئی ہے اور اب نیشنل گارڈ کی تعیناتی کا مطالبہ صورتحال کو مزید گھمبیر بنادے گا۔

 

‎امریکہ میں جاری طلبا کی یہ تحریک اسرائیل نواز امریکی حکمرانوں اور عوام کے درمیان واضح خلیج کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے جہاں ایک حالیہ سروے میں ۱۸ سے ۲۹ سال کے امریکی شہریوں کی اکثریت (۴۱ فی صد) نے امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کی مخالفت کی جب کہ صرف ۷ فی صد شہریوں نے اس فیصلے کی حمایت کی۔ اس وقت نیویارک یونیورسٹی سے ۱۳۰ سے زیادہ،ییل یونیورسٹی سے ۴۵، یونیورسٹی آف منی سوٹا سے ۹، یونیورسٹی آف ٹیکساس سے ۲۰ سے زیادہ، یونیورسٹی آف ساوتھ کیلی فورنیا سے ۵۰ مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکاہے۔ ‎۱۸ اپریل کو شروع ہونے والی تحریک نویں روز میں داخل ہوچکی ہے۔ طلبا ‘ اسرائیلی قبضے کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری ختم کرنے تک خیمہ بستیاں اور احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔

ای میل کریں