مقاومتی تحریکوں کی فداکاریاں بصیرت کی مرہون منت ہیں، سید حسن نصر الله

مقاومتی تحریکوں کی فداکاریاں بصیرت کی مرہون منت ہیں، سید حسن نصر الله

سیدِ مقاومت نے کہا کہ دسیوں میزائلوں سے صیہونی کالونی "کریات شمعونہ" کو نشانہ بنانے کا مقصد جنوبی لبنان پر ہونے والی جارحیت کا ابتدائی جواب دینا تھا

اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب اللہ" کے سربراہ "سید حسن نصر اللہ" نے جمعہ کے روز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی لبنان کے علاقوں "النبطیہ" اور "الصوانہ" میں نہتے شہریوں کو نشانہ بنانا ایک قابل توجہ امر ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس علاقے پر حملے سے جو دو باتیں سامنے آئیں وہ یہ کہ یہ جارحیت دانستہ تھی کیونکہ دشمن نہتے شہریوں کے قتل عام کو روک سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم ایک حقیقی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں کہ جس کا محاذ سینکڑوں کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے، جس میں مقاومتی مجاہدین کی شہادتیں بھی اس جنگ کا ایک حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہمیں بہت زیادہ تشویش ہوتی ہے۔ ہم نہتے شہریوں کا قتل عام برداشت نہیں کریں گے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ دشمن جان لے کہ وہ اپنی حد سے زیادہ بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ دشمن صرف اس لئے ہمارے شہریوں کو قتل کر رہا ہے تاکہ مقاومت پر دباو ڈال سکے کہ وہ اپنی کارروائیاں روک دیں۔ 7 اکتوبر کے بعد سے اس تمام دباو کا ہدف جنوبی محاذ سے ہونی والی کارروائیوں کو روکنا ہے۔ اس قتل و غارت گری کا جواب تمام محاذوں پر جنگ کے تسلسل سے دیا جانا چاہئے۔

 

سیدِ مقاومت نے کہا کہ دسیوں میزائلوں سے صیہونی کالونی "کریات شمعونہ" کو نشانہ بنانے کا مقصد جنوبی لبنان پر ہونے والی جارحیت کا ابتدائی جواب دینا تھا۔ دشمن کو النبطیہ اور الصوانہ میں شہید ہونے والے بچوں اور خواتین کے خون کی قیمت چکانا ہو گی۔ ان شہداء کے خون کا بدلہ صیہونی فوجی مراکز نہیں بلکہ خون ہی ہے۔ مقاومت لبنان کے پاس جدید میزائل ہیں اور یہ میزائل کریات شمعنہ سے ہو کر "ایلات" تک پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہتھیار ڈالنے کی قیمت بہت سنگین، خطرناک اور تاریخ ساز ہے۔ ہتھیار پھینکنے کا مطلب ذلت، رسوائی اور غلامی ہے۔ امین لبنان نے کہا کہ یہ مقاومت ہی ہے جس نے دشمن کے لئے چیلنجز کھڑے کر دئیے ہے اور ان بحرانوں میں سنگین ترین "طوفان الاقصیٰ" ہے۔ کیا دو ارب سے زیادہ مسلمان غزہ کی عوام تک خوراک اور ادویات نہیں بھیج سکتے؟۔ کیا یہ ذلت اور کمزوری نہیں ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم سب کی ذمے داری ہے کہ حقائق کو بیان کریں۔ صیہونی دشمن 7 اکتوبر سے ابھی تک اپنے کسی بھی ایک جھوٹ کو ثابت نہیں کر سکا۔ حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ اگر سات اکتوبر کو ہونے والے واقعات کی تحقیقات کی جائیں تو حماس کے خاتمے کے حوالے سے نتین یاہو اور جو بائیڈن کے تمام اخلاقی اور قانونی دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ 

 

امیدِ مقاومت نے کہا کہ بہت سارے ممالک حتیٰ کہ حماس سے دوستی کا دعویٰ کرنے والے ممالک نے بھی سات اکتوبر کے حوالے سے اسرائیل کے جھوٹ پر اعتبار کیا۔ اس حوالے سے فلسطین کی مقاومت کو 7 اکتوبر کے بعد جھوٹ اور توھین کی بدترین شکل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ میں دنیا کا سب سے بڑا منافقانہ موقف امریکہ کا ہے۔ اگر امریکہ اب بھی اسرائیل کی ہر قسم سپورٹ بند کر دے تو نتین یاہو چاہے یا نہ چاہے، یہ جنگ خود بخود ختم ہو جائے گی۔ امریکہ اس وقت حماس کے خاتمے کے حوالے سے اسرائیل سے زیادہ اصرار کر رہا ہے۔ اس لئے اس خطے میں بہنے والے خون کے ہر قطرے کی ذمہ دار امریکی حکومت ہے۔ جب کہ اسرائیلی حکام صرف ایک کٹھ پتلی ہیں۔ سید حسن نصر الله نے کہا کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا کہ صیہونی رژیم کا اصلی ہدف فلسطینی عوام کی جبری مہاجرت اور ایک مکمل یہودی ریاست کا قیام ہے۔ غزہ کے محاصرے کا مقصد یہ تھا کہ اس خطے کی عوام دنیا کو جھنجوڑے بغیر خاموشی سے سے مر جائیں۔ اب صیہونیوں کا ہدف ہے کہ مغربی کنارے کے لوگ اردن، غزہ کے لوگ مصر اور 1948ء کی حد بندی پر زندگی گزارنے والے لوگ لبنان منتقل ہو جائیں۔ اب یہ ہماری ذمے داری بنتی ہے کہ اس جبری نقل مکانی کو روکیں۔ اس کے لئے بڑے پیمانے پر ردعمل کی ضرورت ہے۔

 

سید حسن نصر الله نے کہا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ لبنان کی فوج اپنی سرحدوں کے دفاع کے لئے جدید اسلحے اور میزائلوں سے لیس ہو۔ مقاومت لبنان اور فلسطین نے اسرائیل کو شکست سے دوچار کر دیا ہے اور اس رژیم کی طاقت پر سوالیہ نشانہ چھوڑ دیا ہے۔ نیز خطے میں طاقت کا نیا توازن ایجاد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زبانیں مقاومت کی توصیف اور غزہ کے عوام کی استقامت سے عاجز ہیں۔ امریکہ و اسرائیل کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ مقاومت لبنان، غزہ کی حمایت میں ایک نیا محاذ کھول سکتی ہے۔ چاہے حکومتیں ہوں، عوام ہو، تحریکیں ہو یا مجاہدین، استقامتی مرکز میں ہم سب کا مقصد دشمن کو اس جنگ میں شکست دینا ہے۔ سید حسن نصر الله نے اس جنگ میں دشمن کے اہداف کا تذکرہ کیا۔ اس بابت انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد دشمن کو شدید نقصان پہنچانا اور پسپائی پر مجبور کرنا ہے۔ انہوں نے فلسطینی مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ سیاسی مذاکرات کا تعلق فلسطینی گروہوں سے ہے اور حماس کو سب نے اپنے نمائندے کے طور پر چنا ہوا ہے۔ ہم اس مسئلے میں دخالت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت کا اسلحہ لبنان میں سیاسی نظام، قانون اور حکومتی سسٹم کی تبدیلی کے لئے نہیں بلکہ لبنان کی حفاظت کے لئے ہے۔ سرحدوں کی تقسیم ہو چکی ہے اور بقیہ ہر گفتگو "لبنان سے باہر نکلو" کی بنیاد پر ہوگی۔ حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مقاومت ہماری زندگی اور عزت کی ثقافت ہے نہ کہ ذلت اور تسلیم ہونے کی۔

ای میل کریں