تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے گرد گھیرا روز بروز تنگ سے تنگ تر ہو رہا ہے۔ آئے روز صیہونی غاصب ریاست کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صیہونی معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکر نابودی کی جانب تیزی سے سفر کر رہا ہے۔ یہی تقسیم کا منظر صیہونی سیاسی منظر نامہ پر بھی موجود ہے۔ نسل پرستی جیسی لعنت نے صیہونیوں کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ اب وہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑیاں مارتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان تمام حالات میں دوسری طرف مظلوم فلسطینی ہیں کہ جن کی زمینوں، گھروں، باغات اور کھیت کھلیانوں پر صیہونی دشمن سنہ 1948ء سے غاصب ہے اور مسلسل فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ اب یہ فلسطینی اپنی مظلومیت کو طاقت میں بدل کر غاصب صیہونی دشمن کے سامنے ایک نئے انداز سے مزاحمت کر رہے ہیں۔
درج بالا سطور میں بیان کردہ صیہونیوں کی مشکلات اور مصائب میں ایک سب سے بڑی مشکل فلسطینیوں کی نہ رکنے والی مزاحمت اور انتفاضہ کی تحریک ہے جس کا مقصد فلسطین کی نہر سے بحر تک آزادی حاصل کرنا ہے۔ اس عوامی فلسطین انتفاضہ اور مزاحمت کاری کا ایک مقصد اسرائیل کی نابودی ہے۔ یقینی طور پر جب فلسطین نہر سے بحر تک آزاد ہو جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ غاصب صیہونی دشمن کا کوئی وجود باقی نہیں ہوگا۔ آج غاصب صیہونی دشمن کے لئے تمام تر مسائل سے بڑا مسئلہ فلسطینی نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مزاحمت کاری ہے۔ یہ مزاحمت اب فلسطین کی غزہ پٹی سے نکل کر غاصب صیہونی دشمن کے قلب یعنی مغربی کنارے، القدس شریف، جنین، الخلیل، رام اللہ اور دیگر تمام علاقوں تک پھیل رہی ہے۔
آئے روز صیہونی ذرائع ابلاغ میں صیہونی فوجیوں اور موساد کے خفیہ اہلکاروں کے قتل کی خبریں نشر ہو رہی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزر رہا ہے کہ جس میں فلسطینی مزاحمت کی کاروائیوں کا ذکر نہ ہو۔ فلسطینی نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی اس مزاحمت کاری نے جہاں فلسطینی عوام کو ایک نیا حوصلہ عطا کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ غاصب صیہونی دشمن اسرائیل کے تابوت میں ایک آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے۔اس مزاحمت کے نتیجہ میں اسرائیل کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو تا چلا جا رہاہے۔ غاصب صیہونی دشمن کی مشکلات میں اضافہ ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ آئیے اب ذرا غاصب صیہونی دشمن کی گذشتہ بیس سالہ کارکردگی کا ہی جائزہ لیتے ہیں کہ اسرائیل کی قوت میں اضافہ ہو اہے یا کمی۔
اس سوال کو جاننے کے لئے سنہ 2000ء سے لے کر آج تک تقریبا چوبیس برس کے واقعات کا مشاہدہ کرنے سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ گذشتہ ان برسوں میں غاصب صیہونی دشمن اسرائیل کو ایک بھی چھوٹی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ سنہ2000ء میں لبنان کی سرزمین سے ذلت اور رسوائی حاصل کرنے کے بعد غاصب صیہونی دشمن کو سنہ 2006ء میں ایک مرتبہ پھر ذلت اور رسوائی آمیز شکست کا سامنا رہا، اسی طرح سنہ 2007ء، 2009ء، 2011ء اور سنہ 2014ء کی جنگوں میں تواتر کے ساتھ غاصب صیہونی دشمن غزہ اور فلسطین کے علاقوں میں بھی مزاحمت کاروں کے ہاتھ شکست کھا چکا ہے اور اپنے کسی ایک مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے۔ اسی طرح حالیہ سالوں میں یعنی 2019ء اور پھر 2021 ءاور 2022 ءکے درمیان غاصب صیہونیوں کے غزہ اور فلسطین پر حملے ناکام رہے۔ جواب میں فلسطینی مزاحمت نے غاصب صیہونی دشمن کے سیکورٹی ٹھکانوں اور آئرن ڈوم کے نزدیکی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا کر پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔
اسی طرح اب اگر داعش کے متعلق اسرائیل کی منصوبہ بندی کا جائزہ لیں تو یہاں بھی امریکہ اور اسرائیل کی ایک بہت بڑی سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی ناکام ہوتی ہوئی نظر آئی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے داعش کو شام اور عراق میں لانچ کرکے کوشش کی تھی ایک طرف شام، عراق، ایران کو نشانہ بنائیں گے تو دوسری طرف دنیا بھر میں مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالنے کے لئے یہ حکمت عملی کارآمد رہے گی۔ لیکن اس کے برعکس سنہ 2011ء سے 2020ء تک مسلسل دس سال تک داعش امریکہ اور اسرائیل کے تعین کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی اور آخر کار شام اور عراق میں داعش کے منحوس وجود کو نابود کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ مزاحمت کاری کے باعث ہوا۔ اسی طرح غاصب صیہونی دشمن نے صدی کی ڈیل اور ابراھیمی معاہدے کے ذریعہ بھی فلسطین کاز کو دبانے اور ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اس محاذ پر بھی شدید ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی دشمن گذشتہ پچیس برس میں مسلسل ناکامی اور بدترین رسوائی و ذلت کا شکار ہے۔ دوسری طرف صیہونی معاشرے کی تقسیم نے مزید کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اب فوجی تقسیم بھی سامنے آنا شروع ہو چکی ہے۔ بعض اوقات اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی خبروں میں اس بات کا اعتراف سامنے آیا ہے کہ اسرائیل فوج اب کسی بھی قسم کی جنگ کے لئے خود کو تیار نہیں سمجھ رہی ہے۔ ان حالات میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے گرد گھیرا مزید تنگ سے تنگ ہو رہا ہے اور فلسطین کی آزادی کی نوید روز بروز شدت سے تقویت حاصل کر رہی ہے۔