33 روزہ جنگ میں چند اہم کامیابیاں سید حسن نصراللہ کی زبانی

33 روزہ جنگ میں چند اہم کامیابیاں سید حسن نصراللہ کی زبانی

33 روزہ جنگ میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں عبرتناک شکست کا ایک اور نتیجہ جو اسلامی مزاحمت کے حق میں ثابت ہوا ہے

تحریر: علی احمدی

 

12 جولائی 2006ء کے دن اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے لبنان میں اسلامی مزاحمتی گروہ حزب اللہ کی مکمل نابودی کی خاطر بھرپور فوجی جارحیت کا آغاز کیا جو 14 اگست 2006ء تک 33 دن تک جاری رہی۔ اس جنگ میں حزب اللہ لبنان کو عظیم فتح حاصل ہوئی۔ اس فتح کے دو پہلو تھے۔ ایک پہلو ان اہداف کی مکمل ناکامی اور شکست پر مشتمل تھے جن کے حصول کی خاطر اسرائیل نے اس جنگ کا آغاز کیا تھا۔ دوسرا پہلو اس جنگ کے ان اثرات پر مشتمل تھا جو حزب اللہ لبنان کے فائدے میں ظاہر ہوئے۔ اگرچہ اس جنگ میں حزب اللہ لبنان پوری طرح دفاعی پوزیشن پر رہی اور اس کے مدنظر اپنے وطن کے دفاع کے علاوہ کوئی اہداف نہیں تھے لیکن اس کے باوجود 33 روزہ جنگ کے کچھ نتائج ایسے ظاہر ہوئے جو اسلامی مزاحمت کے حق میں تھے۔

 

سید حسن نصراللہ نے اپنی کئی تقاریر میں ان نتائج پر روشنی ڈالی ہے جو درج ذیل ہیں:

1)۔ اسرائیل کے فوجی سیٹ اپ کا اندر سے متزلزل ہو جانا

33 روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فوج شدید تزلزل کا شکار ہو گئی اور اسرائیلی فوجیوں کے حوصلے انتہائی پست ہو گئے۔ اسرائیلی فوج انتشار کی حد تک پہنچ چکی تھی۔ آرمی چیف، آرمی اسٹاف، اعلی سطحی فوجی کمانڈرز اور فوجی افسر اس جنگ میں پیش آنے والی ذلت آمیز شکست کی ذمہ داری ایکدوسرے پر ڈالنے میں مصروف تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ افراد ایکدوسرے پر غداری تک کے الزامات عائد کرنے لگے۔ ایکدوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔ البتہ اس کا نتیجہ کئی اعلی سطحی فوجی عہدیداروں کا مستعفی ہو جانے کی صورت میں بھی ظاہر ہوا۔

 

2)۔ اسرائیلی عوام کا فوج پر اعتماد متزلزل ہو جانا

سابق اسرائیلی وزیراعظم آئزنکوٹ اس بارے میں کہتے ہیں: "سب سے بڑا خطرہ عوام کا فوج سے اعتماد ختم ہو جانا ہے۔ اور یہ وہ حقیقت ہے جو رونما ہوئی ہے۔"

3)۔ اسرائیل کے سیاسی رہنماوں کا فوج اور فوجی کمانڈرز پر اعتماد خدشہ دار ہو جانا

33 روزہ جنگ میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں عبرتناک شکست کا ایک اور نتیجہ جو اسلامی مزاحمت کے حق میں ثابت ہوا ہے اسرائیل کے سیاسی رہنماوں کا اپنی فوج اور فوجی سربراہان پر اعتماد متزلزل ہو جانا ہے۔ سیاسی رہنما فوجی سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کی تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ آپ لوگ حقائق کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ آپ لوگ کمزور ہیں۔ یہ باتیں گذشتہ کئی سالوں سے سنی جا رہی ہیں۔

 

4)۔ اسرائیلی فوج کا سیاسی ذمہ داران پر اعتماد ختم ہو جانا

دوسری طرف اسرائیلی فوج کا بھی اپنے سیاسی اور حکومتی ذمہ داران پر اعتماد ختم ہو گیا ہے۔

33 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے حکومتی عہدیداران نے بہت ہی بزدلی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں فوجی سربراہان ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے بہت زیادہ کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کیا اور اہم فیصلے کرتے وقت بھی بہت زیادہ تزلزل کا مظاہرہ کیا ہے۔

5)۔ اسرائیل میں سیاسی قیادت کے بحران کا آغاز

33 روزہ جنگ میں شکست کے نتیجے میں اسرائیلی عوام کا اپنے سیاسی رہنماوں اور لیڈران پر اعتماد ختم ہو گیا جس کے نتیجے میں غاصب صیہونی رژیم شدید سیاسی بحران کی لپیٹ میں آ گئی۔ ایریئل شیرون کے بعد ایہود اولمرٹ وزیراعظم بنا۔

 

اگر اولمرٹ 33 روزہ جنگ میں کامیابی حاصل کر لیتا تو وہ بھی ماضی کے بڑے لیڈرز جیسے شیرون اور رابن کی طرح محبوب ہو جاتا اور اسے ایک تاریخی قائد کے طور پر دیکھا جانا۔ لیکن اس جنگ میں شدید شکست کا نتیجہ اسرائیل میں سیاسی قیادت کے بحران کی صورت میں ظاہر ہوا جس کے اثرات اب تک جاری ہیں۔

6)۔ اسرائیل کی فوجی ڈاکٹرائن کا خاتمہ

بن گورین کے دور میں اسرائیل کی تشکیل سے جو فوجی ڈاکٹرائن چلی آ رہی تھی وہ انتہائی مختصر مدت میں جنگ کے مطلوبہ اہداف کا کامیابی سے حصول تھا۔ لیکن یہ ڈاکٹرائن 33 روزہ جنگ میں شکست کے بعد چکناچور ہو گئی۔

7)۔ اسرائیل کے سیاسی اور فوجی سربراہان کی جانب سے اپنی طاقت کے محدود ہونے کو درک کرنا

اسرائیل کے سیاسی اور فوجی سربراہان 33 روزہ جنگ سے پہلے اپنی طاقت کے بارے میں بہت زیادہ گھمنڈ اور غرور کا شکار تھے۔

 

وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر ہر قسم کے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن جب اس جنگ میں انہیں حزب اللہ لبنان کے خلاف شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہو گئے کہ ان کی طاقت محدود ہے جبکہ وہ وقت بھی گزر گیا ہے جب وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر جو ہدف چاہتے حاصل کر لیتے تھے۔ انہیں اس حقیقت کا علم ہو گیا کہ اب وہ ایک میوزک گروپ یا چند کمانڈو یا چند پیراٹروپر بھیج کر مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔

8)۔ اسرائیل کی توقعات کی سطح نیچے آ جانا

33 روزہ جنگ سے پہلے اسرائیل جو جنگ بھی شروع کرنا چاہتا تھا اس کے اہداف بہت اونچی سطح کے انتخاب کرتا تھا۔ لیکن اس جنگ میں شکست کے بعد جب اسرائیلی حکام اپنی طاقت محدود ہونے سے باخبر ہو گئے تو اس کے بعد ہر جنگ کیلئے محدود اور نچلی سطح کے اہداف چننے لگ گئے۔

ای میل کریں