تحریر: ڈاکٹر علی عباس نقوی
امام حسین ؑ نے نو محرم الحرام کو فوج اشقیاء کی جانب سے ہونے والے حملے کو ایک روز کی مہلت مانگ کر آگے بڑھایا۔ یہاں انسانی ذہن میں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ میں ایک روز کی مہلت کا راز کیا ہے؟ آیا امام حسینؑ بیعت کرنے کے لیے سوچنے کی مہلت مانگ رہے تھے؟ یا خوف و ہراس میں مبتلا ہونا باعث تھا کہ آپ مہلت طلب کریں۔۔۔؟ البتہ عقل کے معیارات پر پرکھا جائے تو دونوں ہی وجوہات ناقص ہیں اور فکری انتشار کو یکجا نہیں کرتیں۔۔ تو آخر اس مہلت کا راز کیا تھا؟ روایت کہتی ہے کہ امام حسین (ع) نے حضرت عباس (ع) سے فرمایا (مفہوم): "اگر تمھارے لیے ممکن ہو تو انھیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کو ہمیں مہلت دیں، تاکہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور نماز بجا لائیں۔۔۔ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔"
جی عزیزان توجہ کریں کہ وہ راز اس کی کتاب سے دوستی کو کمال تک پہنچانا ہے، جس نے دشت کربلا کو اپنے محبوب ترین انسان محمد ؐ کے لخت جگر حسینؑ اور ان کے خانوادے کے پاکیزہ خون سے آباد کرنے کے لیے بلایا۔۔۔ یہ راز وہ لذت تلاوت قرآن ہے، جو انسان کو اس کے حقیقی ہدف سے قریب ترین کرتا ہے۔ ایک روز کی مہلت سے گویا اس دوست (قرآن) کو میدان کربلا میں متجلی کرنا مقصود تھا، تاکہ حق و باطل کو جدا کرکے حقائق الہیٰ کو ماضی، حال و مستقبل کے تمام انسانیت کے لیے واضح کر دیا جائے اور کوئی تیسری راہ باقی نہ رہے، نیز بتانا مقصود تھا کہ حسینیت و یزدیت دو راہ ہیں، پس جو اہل قرآن ہے، اس کا ہدف حسینی ہونا چاہیئے، بصورت دیگر قرآن کی تلاوت کی لذت کو زندگی میں جاری نہیں کیا جاسکتا۔۔۔
اب یہاں پر ایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ آیا امام حسینؑ کی مہلت جو قرآن کی تلاوت، اس سے دوستی نیز اس کو خود میں سمونے کی وجہ سے تھی، وہ فقط قرآن سے سطحی رابطے کی بدولت تھا۔؟ یقینا ایسا نہیں ہے، تو کیا تھا۔؟ امام حسین نے قرآن کریم کے پیغام کو فقط علم تک محدود نہیں کیا بلکہ اس کے پیغام کا عملی نمونہ پیش کیا، جو ہر انسان کو قرآن سے متمسک رہنے کی جانب دعوت دیتا ہے۔ خود واقعہ کربلا بھی اس علم و عمل کی انتہاء کا نمونہ تھی۔ اگر آپ کی اس مکمل حرکت قرآنی کو ایک سانچے میں سمویا جائے تو بلاشبہ یہ تدبر قرآن کریم کہلائے گا۔
پس یہ کہ اس رات کا راز فقط اس دن میں ختم نہیں ہوا بلکہ شب عاشور کا راز وہ مہلت آج بھی ہر "حر" کے لیے ایک مہلت کا عنوان ہے۔ تدبر قرآن کریم کے ذریعے ہم اس راز سے مستفیض ہوتے ہوئے اس ایک رات سے جو آج کے ہر" حر" کے لیے ہے، فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جس کے لیے قرآن کریم سے جڑنا خود وہی راز ہے، جو واقعہ کربلا کے حقیقی فلسفے تک پہنچنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ایام عزا میں تدبر قرآن کریم ہر حسینی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہر منبر سے تدبر قرآن کا پیغام جانا حسینیت کا راز ہے۔ پس ان نشستوں سے بھرپور استفادہ کریں اور نہ صرف خود بلکہ معاشرے میں بھی تدبر قرآن کریم کے ذریعے قرآن کریم کی مہجوریت دور کرنے کی راہ ہموار کریں، تاکہ وقت کے حسینؑ کے ظہور کو یقینی بنایا جاسکے۔