حماس کے رہنماء

حماس کے رہنماء کا امام خمینی (رح) سے اظہار عقیدت

حماس کے رہنماء نے واضح کیا کہ انقلاب اسلامی کی فتح کے عمل میں امام (رہ) نے بارہا اسرائیل کے ساتھ جدوجہد اور مقدس مقام کی آزادی کا مسئلہ اٹھایا

تہران میں موجود تحریک حماس کے نمائندے ڈاکٹر خالد قدومی نے روزنامہ قدس کے ساتھ گفتگو میں کہا: امام خمینی (رہ) نے دنیا کی سیاسی انجینئرنگ کو بدل دیا۔ مسئلہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کے نقطہ نظر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کا یہ موقف پہلوی حکومت اور ان کی سیاسی جدوجہد کے آغاز کے ساتھ ہی واضح تھا، جس وقت عرب ممالک نے امریکہ اسرائیل کو تیل دینے پر پابندیاں لگائیں اور شاہ ایران نے اسرائیل کا ساتھ دیا تھا، اس وقت ایرانی حکومت کے اسلامی اور عرب ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔ امام خمینی نے اس وقت بھی فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف موقف اپنایا تھا۔

 

تہران میں تحریک حماس کے نمائندے خالد قدومی نے روزنامہ قدس کے ساتھ گفتگو میں مزید کہا: امام خمینی (رہ) نے دنیا کی سیاسی انجینئرنگ کو بدل دیا۔ قدس آن لائن کے مطابق، شاہی جبر  اور رضا پہلوی کی طاقت کے عروج  کے دور میں امام خمینی نے شاہ کی حکومت اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات کو بے نقاب کیا اور عالم اسلام کے لیے اسرائیل کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سنجیدہ موقف اپنایا اور آخر تک اس پر ثابت قدم رہے۔ امام خمینی شاید پہلے مجتھد اور عظیم مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے مذہبی فنڈز اور خمس و زکوٰۃ کو  فلسطینی جنگجوؤں کی حمایت میں خرچ کرنے کی اجازت دی تھی۔

 

تہران میں تحریک حماس کے نمائندے خالد قدومی نے قدس اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل فلسطینی قوم کے لیے امام خمینی کی حمایت کے بارے میں کہا: چالیس اور پچاس کی دہائی میں امام خمینی کی اکثر تقریریں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اہم تھیں۔ آپ نے اپنے خطابات میں شاہ کے داخلی جبر اور سامراج نواز خارجہ پالیسی کے پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھی۔ خارجہ پالیسی کے معاملے میں انہوں نے ہمیشہ شاہ کے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر کڑی نقطہ چینی کی۔

 

حماس کے رہنماء نے واضح کیا کہ انقلاب اسلامی کی فتح کے عمل میں امام (رہ) نے بارہا اسرائیل کے ساتھ جدوجہد اور مقدس مقام کی آزادی کا مسئلہ اٹھایا۔ عالم اسلام کے حوالے سے ان کا بنیادی اور اہم ترین نظریہ اسرائیل کے خلاف جنگ اور جبر و استبداد سے مقابلہ نیز مستضعف اور مظلوم قوموں کا دفاع کرنا تھا۔ خالد قدومی  نے حضرت امام خمینی کی عظیم شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: وہ ایک جہتی شخصیت نہیں تھے بلکہ عالم اسلام میں ایک دینی شخصیت اور مستند سیاسی رہنما تھے۔ تہران میں تحریک حماس کے نمائندے نے مزید کہا: امام خمینی کا اصل نظریہ ملت اسلامیہ بالخصوص مظلوم فلسطینی قوم کے مسائل کی طرف عالم انسانیت کو متوجہ کرنا تھا۔

 

خالد قدومی نے انقلاب سے پہلے فلسطینی رہنماؤں اور امام کے درمیان تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: انقلاب کی فتح سے قبل مزاحمت کے قائدین بشمول فتح اور دیگر فلسطینی تحریکوں کے ساتھ امام خمینی کے تعلقات بہت اچھے اور قریبی تھے۔۔ نیز امام کی جلاوطنی کے دوران فلسطینی رہنماء ان سے بیرون ملک ملاقاتیں کیا کرتے تھے اور فلسطین اور ایران کی دو قوموں کے درمیان یہ قریبی اور دوستانہ رشتہ آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا: امام خمینی کی قیادت میں ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی سیاسی انجینئرنگ کو تبدیل کرنے اور فلسطینی قوم کے لیے پناہ گاہ اور غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں ایک بنیادی تبدیلی لانے میں کامیاب رہا، یہ ایک اہم موڑ تھا۔ جب اسرائیل کے خلاف فلسطین کی آزادی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

 

تہران میں تحریک حماس کے نمائندے نے آخر میں کہا: امام خمینی (رہ) اور رہبر معظم کی آرزو اسرائیل کی مکمل تباہی ہے اور یہ آرزو بہت جلد پوری ہوگی۔ آج عالم اسلام کی اقوام میں مشترکہ دشمن صیہونی حکومت ہے، اسلامی ممالک کو مشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس حکومت کی تباہی کے لیے زمین فراہم کرنی چاہیئے۔ امام خمینی ایک ایسے مکتب فکر کا نام ہے، جو "قبضے، تسلط اور جبر سے لڑنے کی تلقین کرتا ہے۔" حضرت امام خمینی (رہ) ایک سچے مجاہد اور الہیٰ رہنما تھے، ان کا نقصان ایک عظیم اور دردناک سانحہ ہے۔ بلاشبہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک عظیم اسلامی امت اور قوم پر فخر ہونا چاہیئے، جس نے ایسے عظیم مفکر اور رہنماء کی پرورش کی۔

 

انہوں نے اپنے پیچھے ایک عظیم مکتبہ فکر کو وراثت کے طور پر چھوڑا، جو تسلط اور جبر کے خلاف جدوجہد کے اصولوں پر قائم ہے۔ امام خمینی نے قدس اور اس کی آزادی کے مسئلے کو خطے اور دنیا کے مسلمانوں کے تمام مسائل پر ترجیح دینے کی کامیاب کوشش کی۔ امام خمینی (رہ) نے مسئلہ فلسطین کی طرف قوم اور علاقائی حکومتوں کی دلچسپی اور توجہ کو نئے سرے سے زندہ کیا۔ یہ مسئلہ اسلامی جمہوریہ کے آئین میں واضح طور پر نظر آتا ہے، جو واضح طور پر کسی بھی حالت میں خطے میں اسلامی مزاحمت اور عسکری گروہوں کی حمایت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور خطے کے عوام کے مشترکہ دشمن کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی حمایت کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

 

اسلامی کیلنڈر میں یوم قدس کا اندراج مغرب کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے میں امام کے گہرے اور اتحاد پر مبنی نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس ملک کے انقلاب نے ظالمانہ پابندیوں اور عوام پر اقتصادی دباؤ سمیت تمام مشکلات کو قبول کرنے کے باوجود فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھی ہے اور یہ غاصبوں کے گلے میں کانٹے کی طرح چبتا ہے۔ امام خمینی (رہ) اور آیت اللہ خامنہ ای کی روش خطے کی اسلامی برادری میں بعض فروعی اختلافات کے موجود اہم اسلامی مسائل پر مشترکہ موقف اپنانا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی فتح کے بعد اپنی حکومت کے ابتدائی سالوں میں امام خمینی (رہ) نے شروع ہی سے واضح کر دیا تھا کہ مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس کی حمایت مسلم اقوام کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے اور وہ لوگ جو اسلامی معاشرے کی کامیابی چاہتے ہیں، وہ اتحاد و یکجہتی کے دامن کو نہ چھوڑیں۔

ای میل کریں