اسلام ٹائمز۔ آج صبح تہران میں بانی انقلاب اسلامی ایران، امام خمینی (ره) کی 34ویں برسی بڑے جوش و خروش سے منائی گئی۔ برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ممکن ہے کہ امام راحل (ره) کی تعلیمات میں کوئی تحریف ہو جائے لیکن یہ ایسا خورشید ہے جو بادلوں میں نہیں چھپ سکتا۔ امام خمینی (ره) کی تحریک دنیا میں تین بڑی تبدیلیاں لے کر آئی۔ ایک ملکی سطح پر، دوسری امت اسلامی کی سطح پر اور تیسری تبدیلی عالمی منظر نامے پر ظاہر ہوئی۔ یہ تینوں تبدیلیاں بے مثال تھیں جو شاید دوبارہ کبھی آشکار نہ ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی (ره) نے ایک غیر اسلامی نظام کو نابود کر دیا۔ انہوں نے جبر کو آزادی، گمنامی کو خود اعتمادی اور غیروں سے امید کو اپنے زور بازو کی قوت میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مشکلات در پیش ہیں لیکن اپنے بل بوتے پر جینے کا احساس ان مشکلات کو عبور کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ جس سطح پر امام خمینی (ره) نے امت اسلامی میں بیداری پیدا کی اس سطح پر آج امت اسلامی، انقلاب سے پہلے کی نسبت زیادہ متحرک ہے۔ البتہ یہ تحرک بیشتر ہونا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ دشمنوں کا منصوبہ تھا کہ مسئلہ فلسطین عالمی منظر نامے سے محو کر دیا جائے لیکن امام راحل (ره) کے اقدامات کے سبب آج فلسطین عالم اسلام کے اولین مسئلے میں تبدیل ہو چکا ہے، امام خمینی (ره) نے فلسطین کاز کو جلا بخشی۔ آج یوم القدس صرف اسلامی ملکوں میں ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی ممالک میں بھی قابل تعظیم ہے۔ امام راحل (ره) نے عالمی سطح پر حتیٰ غیر مسلم ممالک میں بھی روحانیت کو زندہ کیا، قبل ازیں روحانیت عالمی طاقتوں کے زیر پا تھی۔ امام خمینی (ره) کی تحریک نے روحانیت کو رونق بخشی۔ اب یہ تبدیلی عالمی طاقتوں کی زد پہ ہے۔ یہ طاقتیں اس روحانیت کو ختم کرنے کے لئے ہر حربہ آزما رہی ہیں۔ رہبر معظم نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ امام خمینی (ره) نے یہ سب کچھ کس سافٹ وئیر یا ہارڈ وئیر کے ذریعے انجام دیا۔ اُن کے پاس نہ تو ثروت تھی نہ آج کا میڈیا اور نہ ہی کوئی عالمی طاقت ان کی حمایت کر رہی تھی۔ رہبر انقلاب نے ان سب سوالوں کا جواب امام راحل (ره) کے ایمان کو قرار دیا۔ انہوں نے اس بابت امام راحل (ره) کے ایمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک واقعہ شئیر کیا۔
پیرس میں ایک دفعہ شہید مرتضیٰ مطہری، امام خمینی (ره) سے ملنے گئے، انہوں نے امام راحل (ره) کی ذات میں موجود 4 اقسام کے ایمان کی نشاندہی کی۔ 1- اپنے ہدف پر ایمان 2- اپنے راستے پر ایمان 3- مومنین پر ایمان 4- خدا پر ایمان۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ جب ظالم کے مقابلے میں خدا پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مراد ہے کہ خدا کے وعدے پر اعتماد کرنا، یہی امر امام راحل (ره) کی تحریک کا مستحکم نقطہ تھا۔ رہبر معظم نے کہا کہ امام خمینی (ره) کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ امام راحل (ره) کے گفتار و کردار سے امید کا عنصر جھلکتا تھا۔ جس طرح وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ جدوجہد کے آغاز سے کامیابی تک میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔ یہ امید امام خمینی (ره) کے مضبوط ایمان کی نشان دہی کرتی ہے۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اُمید سے مُراد وہ حالت ہے جو حرکت کے ساتھ ہو نہ کہ سستی اور خاموشی کے ہمراہ۔ جو منزل تک پہنچنے کی امید رکھتا ہے وہ قدم اُٹھاتا ہے، یہ ناممکن ہے کہ کوئی بیٹھ کر اپنی منزل تک پہنچنے کی امید رکھے۔
رہبر معظم نے کہا کہ آج امام ہمیں کیا نصیحت کر رہے ہیں، عزیز بھائیو، حوصلہ مند جوانو امام کی نصیحت پر عمل کرو۔ ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں امام کی نصیحت کی ضرورت ہے۔ امام ہمیں اپنی راہ جاری رکھنے اور اس عظیم میراث کو محفوظ کرنے کی نصیحت کر رہے ہیں۔ ہمیں امام کی ایجاد کردہ تین تبدیلیوں کی حفاظت کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن ابھی تک اس نظام کو مغلوب کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے اکثر منصوبے ناکام ہو گئے۔ جس کی تازہ ترین مثال ایران میں ہونے والے حالیہ افراتفری کے واقعات تھے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب اسلامی جمہوریہ ایران سرنگون ہو جائے گا، لیکن ان احمقوں نے اس دفعہ پھر ایرانی قوم کو پہچاننے میں غلطی کی۔ ایرانی عوام نے ان کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور ہمارے جوانوں نے دشمن کے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔