تحریر: شیخ میرزا علی
اہل سنت عالم دین ابن خلکان نے لکھا کہ آپ سادات اہل بیت علیہم السّلام سے تھے، آپ کی فضیلت اور فضل و کرم کسی بیان کا محتاج نہیں ہے۔ ولادت 17 ربیع الاول 83 ھ، والد کا نام امام محمد باقر علیہ السّلام ابن امام زین العابدین علیہ السّلام ابن حسین ابن علی علیہ السّلام ابن علی ابن ابی طالب علیہ السّلام۔ والدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد ابن ابی بکر، نام جعفر، شہرت جعفر بن محمد تھی۔ کنیت ابو عبد اللہ، آپ نے بارہ سال اپنے دادا امام زین العابدین علیہ السّلام کی سرپرستی میں گذارے اور انیس سال اپنے والد امام محمد باقر کی سربراہی میں گذارے۔ اس طرح اکتیس سال دونوں اماموں کی امامت میں کما حقہ تربیت پائی۔ دادا کی صحبت میں عبادت و دعا کا عروج دیکھا اور والد کی صحبت میں حدیث بیان کرنے کا اسلوب سمجھا۔
تاریخ اسلام میں ایسا دور بھی آیا تھا، جب حدیث بیان کرنے، حدیث پر تحقیق کرنے، حدیث کا حوالہ دینے پر سخت پابندی لگائی گئی تھی، جس کے نتیجہ میں متون کی تدوین پر منظم انداز میں کام نہیں کیا جا سکا، جو 120ھ میں امام محمد باقر علیہ السّلام کے دور امامت کے اواخر میں باقاعدہ درس و تدریس کی صورت میں شروع کیا گیا۔ تاریخ اسلام کا یہی دورانیہ علمی میراث کی تدوین کا دور رہا، جس کی بنیاد امام محمد باقر علیہ السّلام نے رکھی، اسی لئے آپ کو باقر العلوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مدینہ میں اسلامی یونیورسٹی کی رسمی بنیاد ڈالی گئی، جس کو امام جعفر صادق علیہ السّلام نے وہ عروج عطاء کیا، جو رہتی دنیا کیلئے ایک روشن باب کی حیثیت اختیار کر گیا۔
اگرچہ اس تاریخ اسلام کے علمی ارتقاء کے دور میں بھی کئی چیلنج پیدا ہوئے، ایک طرف روم، یونان اور ایران کے فلسفوں کے اثرات اطراف عالم میں پھیل رہے تھے، جن کو قرآن و حدیث کے معیار پر پرکھنے کی ضرورت تھی، تاکہ اسلامی مکتب ان غیر منطقی فلسفوں کی آمیزش سے محفوظ رہ سکے اور ان پھیلتے نظریات کے مقابلے میں منطق و استدلال، قرآن و حدیث سے ماخوذ نظریات کا پرچار کیا جا سکے۔ تاریخ اسلام نے یہ ثابت کیا ہے کہ بدترین حالات اور افراتفری کے ماحول میں اسلامی عقائد، فقہ اور دوسرے علوم کی حفاظت اہل بیت رسول علیہم السّلام نے کی ہے۔ سیدہ دو عالم سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السّلام تک ہر فرد نے اپنی بنیادی ذمہ داری نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ان ہستیوں نے دوست و دشمن کو خاطر میں لائے بغیر علم و حکمت کے خزانے بکھیرے ہیں۔
مسجد نبوی ہو، وہاں علم و حکمت کا مرکز رسول اکرم کے بعد حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت علی ابن الحسین، حضرت محمد ابن علی، حضرت جعفر ابن محمد ہی رہے ہیں۔ میدان جنگ میں بھی انہی ہستیوں سے لوگوں نے علم کی روشنی پائی ہے، حتی کہ بگڑے ماحول کے کوفہ و شام کے درباروں میں بھی کہیں زینب بنت علی تو کہیں علی ابن الحسین نے پابند سلاسل ہو کر بھی حق اور ناحق، سچ اور گمراہی میں حد فاصل قائم رکھا ہے۔ اب جب اسلامی معاشرہ میں اسلامی علوم کے درس و تدریس کا باقاعدہ نظام تشکیل ہونے جا رہا ہو تو علم کے تشنوں کی پیاس بجھانے کا ہنر بھی خاندان رسالت کے چشم و چراغ ہی رکھتے ہیں، جن کے گھرانہ میں قرآن نازل ہوا۔ جبرائیل امین کا جن کے گھر آنا جانا تھا اور حدیث کے بیان کرنے والے رسول اقدس سے انہی حدیثوں کو وراثت میں پایا ہو، بھلا وہ علم جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوسکتا ہے، وہ بھی اسی گھرانہ کا خاصہ ہے۔
کیونکہ جس زمانہ میں امام جعفر صادق علیہ السّلام نے درس و تدریس کو منظم کیا، تب اصحاب اور تابعین کے مصداق مفقود تھے۔ تبع تابعین کسی حد تک تھے، لیکن جو معیار قیام قیامت تک برقرار رہنا ہے، وہ اہل بیت رسول علیہم السّلام ہیں، کیونکہ ان کی نمایاں میراث علم نبوت و رسالت ہے۔ جس کا بھرپور مظاہرہ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے اپنی امامت کے 34 سالہ دور میں فرمایا اور یہ وہی دور تھا، جب اسلامی معاشرہ میں امام ابو حنیفہ، امام حنبل، امام شافعی، امام مالک جیسے علمی مراکز بھی وجود میں آئے، امام جعفر صادق علیہ السّلام کی بدولت آج احادیث کے مجموعے صحاح، سنن، مسانید اسلامی مکاتب فکر کو میسر آئے، اگر حقیقت بینی سے کام لیا جائے تو آج کی اسلامی دنیا پر امام جعفر صادق علیہ السّلام بہت بڑا احسان ہے، جو امت مسلمہ کے گردن پر ایک فرض ہے۔