شہادتِ صادقِ آلِ محمد اور عصرِ حاضر کا انسان
تحریر: سویرا بتول
پندرہ شوال کا دن شہادتِ امام جعفرِ صادق علیہ سلام سے منسوب ہے۔ امام جعفر صادق علیہ سلام رسولِ خدا(ص) کے چھٹے جانشین اور سلسلہ عصمت کی آٹھویں کڑی ہیں۔ آپؑ کے والد ماجد امام محمد باقر(ع) اور مادرِ گرامی جنابِ امِ فروا بنتِ قاسم بن محمد بن ابی بکر ہیں۔ آپؑ کے مشہور القابات میں جعفر (جنت میں ایک شیریں نہر کا نام) شامل ہے، کیونکہ آپ کا فیضِ عام جاری نہر کی طرح تھا، لہذا اسی لقب سے مقلب ہوئے۔ اِس کے علاوہ آپ(ع) کا سب سے مشہور لقب صادقِ آلِ محمد ہے۔ تمام عالمِ اسلام میں آپ علیہ السلام کی علمی جلالت کا شہرہ تھا۔ دور دور سے لوگ تحصیلِ علم کے لیے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، یہاں تک کہ آپ(ع) کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی۔ اِن میں فقہ کے علماء، روایان ِحدیث، ماہرینِ فنون، تفسیر کے متکلمین اور مناظرین بھی شامل تھے۔ آپؑ نے فقہ و کلام کے علاوہ علومِ عربیہ جیسے ریاضی اور کیمیا جیسے مضامین کی بھی تعلیم دی۔
آپ(ع) کے اصحاب میں سے جابر بن حیان طرسوسی(بابائے کیمیا) سائنس اور ریاضی کے مشہور امامِ فن ہیں، جنہوں نے 400 رسالے امامِ صادق کے افادات کو حاصل کرکے تصنیف کیے۔ اس کے علاوہ آپؑ کے اصحاب میں بہت سارے جید فقہاء بھی شامل ہیں، جنہوں نے کئی کتب تصنیف کیں، جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ آپ کے تلمذہ کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں چند ممتاز نام بھی شامل ہیں، جیسے امام ابو حنیفہ، یحییٰ بن سعید انصاری، ابنِ جریم، شعبہ، ابو عاصم، امام مالک بن انس، امام سفیان ثوری، سفیان بن عینید، ایوب سجستانی اور امام الکیمیا جابر بن حیان۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا علم شش جہات تھا، لہذا شاگردوں کے فن کی نوعیتیں بھی مختلف ہوئیں۔ تاہم جو بھی آیا، وہ اس بارگاہ سے اپنی صلاحیت کے بقدر دامانِ طلب کو علوم و فنون سے بھر کر نکلا۔
یہ الگ بات ہے کہ دامن بھر جانے کے بعد کسی نے اپنی تہی دامنی کو یاد رکھا اور کوئی اپنی کوتاہ نظری کے سبب امامؑ کے مقابلے پر آگیا، پھر بھی استاد اور شاگرد کا فرق ہمیشہ باقی رہا۔ کوئی فلسفی حاضر ِخدمت ہوا تو آپ نے فلسفیانہ انداز میں گفگتو کی، منطقی کو منطق سے قائل کیا اور دہریئے سے الہیات اور ما بعدالطبیعیات کی روشنی مین بحث کی۔ فقہ و حدیث تو فرزندِ رسول کے گھر کی باتیں تھیں، اِن کو لوگوں تک پہنچانا تو صادقِ آلِ محمد کا پیدائشی منصب تھا۔ علم القرآن بھی اسی ذیل آتا ہے، لیکن دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں تھا، جس میں آپ کو درجہ کمال تک دسترس حاصل نہ ہو۔ مادے کا تغیر و تبدل، ماہیت و افادیت اشیاء، نظامِ قمری و شمسی، طبعیات و کیمیا، علم جفر، علم الافلاک و نجوم، کائنات سے پہلے اور بعد کا حال، سب کچھ ادراک میں تھا، جس سے ہزاروں لوگ فائدہ اٹھاتے اور باہر جا کر عام عوام کے دلوں پر اپنی قابلیت کا سکہ بٹھاتے۔
ایسی معروف زندگی رکھنے والی شخصیت کو جاہ و سلطنت حاصل کرنے کی فکروں سے کیا مطلب؟ مگر فرزندِ زہرا(ع) کی علمی مرجعیت اور کمالات کی شہرت سلطنتِ وقت کے لیے ایک مسلسل خطرہ تھی جبکہ باطل حکومتوں کو بذاتِ خود اس بات کا ادراک تھا کہ اصلی خلافت کے حقدار یہی آلِ رسول ہیں۔ اگر انہیں مسندِ خلافت پر بٹھایا جاتا تو یہ اپنے جد علیؑ ابنِ ابی طالب کی طرح اہل توریت کا فیصلہ توریت سے، اہلِ زبور کا فیصلہ زبور سے اور اہلِ قرآن کا فیصلہ قرآن سے کرتے۔ مگر یہ باطل حکومتیں جب حاملِ علم لدنی کا مقابلہ نہ کرسکیں تو خاموش حربہ زہر کا اپنایا گیا اور یوں شمعِ امامت اور علم کا ایک عظیم باب پندرہ شوال 148 ھ کو بند ہوگیا۔
افسوس ہوتا ہے کہ آج اُسی فقہ صادق کے ماننے والے علم سے دور ہیں۔ کہاں ہیں وہ مفکر، فلسفی، دانشور اور محقق جنہوں نے دنیا کو علومِ آلِ محمد سے روشناس کروانا تھا؟ تاریخ آج بھی کسی جابر بن حیان کی متلاشی ہے۔ عصرِ حاضر کا انسان تشنہ ہے۔ اِن تشنہ انسانوں کو علم کے سمندر سے سیراب کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کا علیؑ قیدِ تنہائی میں کسی باوفا ساتھی کا منتظر ہے، جو آئے اور اِن تشنہ انسانوں کو علم کے سمندر سے سیراب کرے، آج یوسفِ زہراؑ کو ایسے ریسرچر چاہیئں جو دین اور دنیا ہر میدان میں حاضر ہوں اور علم کے ذریعے وقت کے حسینؑ کی نصرت کریں۔ امامِ وقتؑ راستے میں ہیں، کیا ہم تیار ہیں۔؟