امام خمینی (رح) کی بیٹی نقل کرتی ہیں کہ امام کا اپنے دامادوں اور بہووں سے سلوک دوستانہ اور محترمانہ تھا، کیونکہ داماد گھر کے سارے لوگوں کے لئے محرم نہیں ہوتے، آپ داماد کے زیادہ آنے اور جانے کے حق میں نہیں تھے۔ اس وجہ سے دامادوں سے فاصلہ رکھتے تھے؛ کیونکہ آپ محرم اور نامحرم کے مسئلہ میں کافی سخت انسان تھے۔ عقد کے آغاز میں نصحیت کرتے تھے کہ تم دونوں آپس میں دوست رہوگے۔ گھر میں آؤ تو نرمی کے ساتھ آؤ۔ وہ کہتی ہیں: امام عقد کے آغاز میں لڑکوں اور لڑکیوں سے کہتے تھے۔ تم لوگ آپس میں دوست بن کررہنے کی کوشش کرنا۔ اگر مرد ہو تو گھر کے باہر مسئلہ ہے اور جب گھر میں آجاؤ تو سارے غم و اندوہکو دروازہ کے باہر ہی چھوڑ کر آؤ اور گھر میں انتہائی لطف و مہربانی سے داخل ہو۔ امام دلہنوں سے خطاب کرکے فرماتے تھے: ممکن ہے تم بھی گھر میں کام کرکے تھکی ہو لیکن اپنی خستگی کا اپنے شوہر پر اظہار نہ کرو بلکہ اس کے استقبال کے لئے جاؤ اور اپنے لئے ایک اچھی زندگی بناؤ۔
امام خمینی (رح) کی بیٹی فریدہ مصطفوی کہتی ہیں: اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں بہت ہی معمولی اور سادہ انداز میں کی ہیں اسی طرح اپنے پوتوں اور پوتیوں کی شادی بھی سارہ کی ہے۔ البتہ اپنی لڑکیوں کو جہیز دیتے تھے لیکن بہت مختصر یعنی ایک فرش، دو عدد بیڈ اور دیگر کچھ اسباب و وسائل، آپ اس بات کے پابند تھے کہ لڑکی کا مہر وہ بھی متعارف اور رائج طریقہ سے اس لحاظ سے لڑکیاں مہر بھی رکھتی تھیں اور جہیز بھی۔
امام خمینی (رح) مہر کے بارے میں خاص توجہ رکھتے تھے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ لڑکی کا حتما مہر ہونا چاہیئے۔ اگر کوئی آپ کے پاس عقد کے لئے آتا تھا اور مہر ایک قرآن ذکر کرتا تھا تو قبول کرتے لیکن کہتے تھے کہ کوئی چیز مہر کے عنوان سے تعیین کریں، مہر کی تعیین بھی عرف کی طرف نظر کرتے تھے۔ امام کا عقیدہ تھا کہ مہر لڑکی، اس کے خانوادہ اور ان کے مد نظر معیار پر نظر رکھنی چاہیئے۔ اس کے باوجود شادی بیاہ کے دیگر تکلفات کے قائل نہیں تھے۔
امام کی بیٹی کہتی ہیں کہ انقلاب کے بعد سب سے پہلی شادی میری بیٹی کی ہوئی ہے۔ آقا نے معمولی اور سادہ طریقہ سے شادی کرنے کی تاکید فرمائی اور بے جا فضول خرچی سے منع فرمایا۔ شادی کے دو تین دن پہلے مجھ سے کہا: کیا تم خریداری نہیں کروگی؟ آئینہ اور شمعدان خرید لو! خانم (ماں) نے کچھ نہیں کہا تو میں نے بھی کچھ نہیں کہا۔ خلاصہ امام بقدر ضرورت اور واجب امور کا نظریہ رکھتے تھے اور جہاں تک ہوسکے سارہ سے سارہ ہو۔
برادران اور خواہران سے گزارش ہے کہ اس امر کو آسان سے آسان بنائیں اور سماج و معاشرہ کے کمزور طبقے کے معاون اور مددگار بنیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ شادی بیاہ کا مسئلہ مشکل نہ ہو اور غیر اسلامی معیاروں پر شادی بیاہ نہ ہو، بلکہ اسلامی اور انسانی اقدار و اصول کی پاسداری کی جائے اور قوم و ملت کے لئے جہاں تک ہوسکے آسانی فراہم کرتے ہوئے اسلام کے عملی نمونہ کو دنیا کی دیگر اقوام و ملل کے لئے درس اور عبرت کا سامان فراہم کردیں۔