رمضان میں قرآن پاک کی توہین

رمضان میں قرآن پاک کی توہین

مغرب نے اسلامی مقدسات کی توہین کو اپنے روزمرہ کا معمول بنا رکھا ہے

 

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

 

مغرب نے اسلامی مقدسات کی توہین کو اپنے روزمرہ کا معمول بنا رکھا ہے۔ آئے روز مغرب کے کسی نہ کسی ملک سے اسلامی مقدسات کی توہین کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ ایک ایسے وقت جب مسلمان رمضان کا مقدس مہینہ روایتی دینی جوش و جذبے سے گزار رہے ہیں، اسلام دشمن شیطانی طاقتوں کو یہ اچھا نہیں لگتا کہ اسلام کا نرم اور پرامن چہرہ عالمی برادری کے سامنے ظاہر ہو۔ مغربی ممالک میں موجود انتہائی دائیں بازو کے سیاسی گروہ نیز مغرب میں سرگرم صیہونی لابی اس انتظار میں رہتی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے اسلامو فوبیا کو ہوا دے، تاکہ اسلام کی طرف بڑھتے عوامی رجحان کو روکا جاسکے۔ ڈنمارک میں ہونے والا حالیہ اقدام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

 

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ڈنمارک میں ایک انتہاء پسند گروہ کی جانب سے قرآن کریم کی ایک بار پھر توہین بالخصوص رمضان کے مقدس مہینے میں اس گھناؤنے فعل کی مذمت کی ہے۔ رمضان المبارک کے دوسرے روز ڈنمارک میں پیٹریاٹس لائیو نامی بنیاد پرست گروپ کے حامیوں نے قرآن مجید کی توہین کا سلسلہ جاری رکھا اور ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ترک سفارت خانے کے سامنے قرآن پاک  کو آگ لگا دی۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "ناصر کنعانی چافی" نے یورپ کے بعض ممالک میں قرآن کریم اور مسلمانوں کے مذہبی مقدسات کی توہین اور ان میں اضافے کے خلاف تنبیہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی کی مذمت کی۔

 

اس طرح کی کارروائیاں اور اس طرح کے نقطہ ہای نظر نفرت پھیلانے کی بنیاد ہیں، یہ اقدامات نہ صرف انتہاء پسندی اور تشدد کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں بلکہ امن اور لوگوں کے پرامن بقائے باہمی اور عالمی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب ڈنمارک جیسے مغربی ممالک میں اسلام اور اس کے مقدسات کی توہین کی گئی ہے۔ گذشتہ سال فروری میں ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت Stram Kors کے سربراہ "Rasmus Paludan" نے سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے قرآن پاک کا ایک نسخہ نذر آتش کیا تھا۔ اس کارروائی کی اجازت سویڈش حکومت اور پولیس نے دی تھی اور انہوں نے آزادی اظہار کی آڑ میں اسے جائز بھی قرار دیا تھا۔

 

سویڈن میں اس بے حرمتی کے دو دن بعد، انتہائی دائیں بازو کے گروپ پیٹریاٹک یورپیئنز اگینسٹ دی اسلامائزیشن آف دی ویسٹ (PEGIDA) کے ڈچ سربراہ ایڈون ویگنسولڈ نے ہالینڈ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے بہانے اسلامو فوبیا، مسلم مخالف اقدامات اور اسلامی علامتوں کی بے حرمتی روزمرہ کا معمول بنتی جا رہی ہے۔ ان اقدامات سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کو روکنے اور اسلامی مقدسات کی توہین جیسے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 

اعداد و شمار کے مطابق یورپ میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، مثال کے طور پر ویب سائٹ (Find Easy) نے اعلان کیا ہے کہ 2022ء میں یورپی مسلمانوں کی تعداد 55 لاکھ تک پہنچ جائے گی اور Pew Research Center (PEW) نے بھی اعلان کیا ہے کہ اسلام یورپ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اور گذشتہ 30 سالوں میں یورپ میں مسلمانوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ آبادی میں اضافہ اور یورپ میں اسلام کا پھیلاؤ ہمیشہ سے یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے خدشات میں سے ایک رہا ہے۔

 

ایک اور اہم نکتہ آزادی اظہار کے حوالے سے یورپی حکومتوں سمیت مغرب کا دوہرا معیار ہے۔ آزادی اظہار کا تصور مسلمانوں کی توہین، نفرت پھیلانے اور قرآن پاک کی بے حرمتی کا بہانہ بن چکا ہے۔ یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ سے انکار اور ہم جنس پرستوں کے جھنڈے کو آگ لگانا جرم سمجھا جاتا ہے، لیکن وہ آزادی اظہار کے بہانے اسلامی مقدسات کی توہین کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ آزادی بیان دوسروں کے حقوق کے احترام، قومی سلامتی، سماجی نظم، صحت عامہ اور اخلاقیات کو برقرار رکھنے پر مشروط ہے۔ جارحانہ اقدامات نیز آزادی اظہار کے نام پر توہین اور نفرت کا بازار گرم کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔

 

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے انسانی حقوق کے نام پر حالیہ توہین اور بے حیائی سے آنکھیں چرانے کو عالمی اور حقیقی انسانی حقوق کے بالکل منافی قرار دیا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور مسلم ممالک تمام اقوام سے توقع رکھتے ہیں کہ اس طرح کے توہین آمیز اقدامات سے دوری اختیار کی جائے، نیز ڈنمارک کے حکام کو اس طرح کی توہین اور نفرت انگیز اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے آزادی اظہار کے بہانے ایسے جارحانہ سلسلہ کی تکرار کو روکنا چاہیئے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شاید اسی تناظر میں فرمایا تھا کہ مغربی ممالک کی نگاہ میں مقدسات اور الہیٰ انبیاء کی توہین، اظہار رائے کی آزادی کیوں ہے؟ حالانکہ وہ خود ہولوکاسٹ پر سائنسی تحقیق کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ الفاظ مغربی حکومتوں کے متضاد خیالات اور اقدامات کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔

ای میل کریں