انقلاب اسلامی ایران ایک بابرکت تحریک اور روشنی کا دھماکہ ہے جو گمراہی اور آوارہ گردی کے درمیان رونما ہوا ہے۔ اور طاغوتیوں پر ایک گرج نازل ہوئی ہے جس سے ایک قوم کی پیدائش ہوئی ہے اور اس تحریک کے ذریعے تمام انبیاء اور اولیاء کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہے اور یہ کہنا کتنا خوبصورت ہے کہ یہ انقلاب، ظہور صغرا اور ظہور کبریٰ حضرت صاحب الزمان (عجل اللہ فرجہ الشریف) کی بنیاد ہے۔ اس انقلاب کے رہبر اور بانی نے فرمایا: "ہمارا انقلاب اسلامی دنیا کے عظیم انقلاب یعنی حضرت حجت (ارواحنا فداه) کا انقلاب کا نقطہ آغاز ہے، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور دنیا پر رحم فرمائے اور موجودہ دور میں آپ کا فرج فرمائے۔
تمام قلوب اور تمام بصارت و بصیرت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہے جو صاحب قدرت ہے۔ وہی ہے جو مدبر جہان ہے اور دن و رات کو پلٹاتا ہے، وہی ہے جو قلوب کو منقلب کرتا ہے، بصیرتوں کا روشن ہونا اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہے جو انسانی حالات کو تبدیل کرتا رہتا ہے اور ہم نے اس چیز کو اپنی بہترین عوام میں، زن ومرد اور چھوٹے بڑوں سب میں مشاہدہ کیا ہے۔
قلوب کا تحول کہ یہ قلوب جو دنیوی خواہشات اور مادی اشیا سے اپنا رشتہ منقطع کر کے خدا سے جا ملیں، بصیرتیں روشن ہوجائیں اور اپنی اچھائی برائی کو ایسی بصیرت کے ذریعہ سمجھ لیں، یہ وہ تمام امور ہیں جو الحمدﷲ ہماری ملت میں بہت شان وشوکت سے متجلی ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس نئے سال کے آغاز پر یہ تمام امور اپنی اوج تک پہنچ جائیں گے۔ یہ قلوب جو انقلاب سے قبل شیفتہ دنیا، دنیوی خواہشات میں اسیر اور عالم غیب کی طرف بہت کم توجہ رکھتے تھے اور عالم غیب کے بہت کم جلوے ان میں دیکھے جاتے تھے لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تمام جلوے ان میں متجلی ہیں، خدا سے ملاقات کیلئے شوق واشتیاق انہیں مل گیا ہے اور خداوند عالم کا دست عنایت ہماری قوم کے سر پر موجود ہے کہ جس نے اس کے ایمان کو مضبوط ومحکم بنا دیا ہے کہ جو حضرت امام زمانہ ؑ کے ظہور کی علائم میں سے ایک علامت ہے۔
یہ بات ایسے ہی نہیں ہے کہ ایک قوم کہ جس نے شہنشاہیت کے پچاس سالہ دور حکومت میں جو اس قوم کیلئے ایک سیاہ دور تھا، سخت ترین زندگی گزاری، ایک ایسے قلب میں تبدیل ہوجائے کہ جس کا نور، نور آفتاب سے زیادہ روشن ہو اور وہ ایک ایسی بصیرت کی مالک بن جائے کہ جس کا نور، ملک وملکوت کو منور کردے۔ یہ ایک معجزہ آسا انقلاب وتبدیلی ہے کہ جو ہماری قوم کے تمام طبقات میں رونما ہوئی ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۱۲۹)