شہید قاسم سلیمانی کے لہو کا اثر
تحریر: سیروس فتح اللہ
تین سال پہلے 3 جنوری کی صبح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سابق چیف کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، عراق میں داعش کے خلاف نبرد آزما حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابومہدی المہندس اور ان کے چند دیگر ساتھیوں کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی ڈرون طیارے کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ حملہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر دہشت گرد امریکی فوج نے انجام دیا تھا۔ اس دہشت گردانہ کاروائی میں امریکی فوج کو علاقائی ایجنٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس ایران اور عراق کے باقاعدہ سرکاری عہدیداران تھے لہذا امریکہ کی یہ دہشت گردانہ کاروائی تمام بین الاقوامی قوانین اور اور مقررات کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
اکثر تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ نے اسلامی مزاحمتی بلاک کو کنٹرول کرنے میں امریکیوں کی کمزوری اور بے چارگی مزید عیاں کرنے کے علاوہ خطے میں عالمی استکبار کی منصوبہ بندی کو بھی شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ امریکی حکمران گمان کر رہے تھے کہ شہید قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹانے کا نتیجہ خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کا سلسلہ رک جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن عوامی محبوبیت کے حامل اس فوجی کمانڈر کی شہادت سے نہ تو اسلامی وحدت کو نقصان پہنچا، نہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کا سلسلہ تھما اور نہ ہی مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کی توجہ کے مرکز سے باہر نکلا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شہید قاسم سلیمانی مختلف فوجی اور سفارتی محاذوں پر فعالیت انجام دینے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ میں وحدت اور مسئلہ فلسطین کی بھی بھرپور حمایت کرتے رہتے تھے۔
شہید قاسم سلیمانی اس بات پر پختہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مسئلہ فلسطین اصل میں امت مسلمہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور جہاں تک ممکن ہو بھرپور توانائی سے اس کی حمایت کرنی چاہئے۔ لہذا انہوں نے قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کو آزاد کروانے نیز غاصب صیہونی رژیم کے مکمل خاتمے اور خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کیلئے مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان وحدت اور اتحاد ایجاد کرنے کو اپنا بنیادی ترین اصول بنا رکھا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی کا عقیدہ تھا کہ مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان وحدت کا فروغ، خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی تقویت کا باعث بنتا ہے اور اگر اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان یہ وحدت قائم ہو جاتی ہے تو خطے میں امریکی مداخلت بند ہونے کے ساتھ ساتھ مجرم صیہونی رژیم کی کانپتی بنیادیں مزید کمزور ہو کر آخرکار نابود ہو جائیں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کی فضا قائم کر کے اسلامی دنیا کو ایک ایسے راستے پر لگا دیا ہے جو متحدہ محاذ کی جانب گامزن ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خطے اور دنیا کے اہلسنت اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان بے مثال ہم آہنگی اور وحدت پیدا ہو چکی ہے۔ اب یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ خداوند متعال کی خاص عنایت کے نتیجے میں امت مسلمہ عنقریب نئی اسلامی تہذیب و تمدن تشکیل پا سکے گی اور عظیم کامیابیوں سے بھی ہمکنار ہو جائے گی۔ اگرچہ امت مسلمہ کی دشمن قوتیں اس میں تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں لیکن علماء اسلامی کی بیداری اور ہوشیاری کے نتیجے میں یہ سازشیں بے اثر ہو جائیں گی۔
غاصب صیہونی رژیم کے خلاف لبنان کی 33 روزہ جنگ اور فلسطینی مجاہد گروہوں کی جنگوں میں کامیابی نیز عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی نام نہاد خلافت کا خاتمہ، خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی باتوں کا آغاز اور اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں میں اتحاد اور وحدت کی فضا کا قیام شہید قاسم سلیمانی کی ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور یہ تمام کامیابیاں عنقریب اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کی نوید دے رہی ہیں۔ یہ تمام کامیابیاں، شہید قاسم سلیمانی کی مخصوص ہدایات کے زیر سایہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ لیکن امریکی حکمران اس بات سے غافل تھے کہ اسلام جیسے عظیم مکتب میں شہادت وحدت اور نجات کا باعث بنتی ہے اور شہداء کا خون اسلامی دنیا کا مستقبل روشن کر دیتا ہے۔
دین مبین اسلام کے آغاز سے ہی یہ حقیقت قابل مشاہدہ ہے کہ کس طرح شہدائے اسلام کا خون مسلمانوں اور دنیا بھر کے حریت فکر رکھنے والے انسانوں کی ہدایت اور ان میں وحدت کی فضا قائم ہونے کا باعث بنا ہے۔ اگر امریکی دہشت گرد اور خطے میں ان کے ایجنٹ اس حقیقت سے باخبر ہوتے کہ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ یوں قومی اور علاقائی وحدت کا باعث بن جائے گی اور شہید قاسم سلیمانی ایرانیوں اور امت مسلمہ کیلئے ایک ہیرو میں تبدیل ہو جائیں گے تو وہ ہر گز یہ مجرمانہ اقدام انجام نہ دیتے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد خطے کے تمام اسلامی مزاحمتی گروہ آہنی عزم اور ارادے کے ساتھ امریکہ کے مقابل آن کھڑے ہوئے ہیں اور پوری طاقت سے امریکہ سے انتقام کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح وہ خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کیلئے بھی پرعزم ہیں۔ لہذا شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے خون کا سب سے بڑا اثر مسئلہ فلسطین کی مرکزیت میں امت مسلمہ کا متحد ہو جانا ہے۔