تنقید کا حق اور چاپلوسی کی مذمت

تنقید کا حق اور چاپلوسی کی مذمت

خوشامد اور چاپلوسی ایک ثقافتی بیماری اور عارضہ هے جس کے نتائج خطرناک اور بھیانک اور معاشرہ کے لئے ناگوار اثرات کی حامل ہے

خوشامد اور چاپلوسی ایک ثقافتی بیماری اور عارضہ هے جس کے نتائج خطرناک اور بھیانک اور معاشرہ کے لئے ناگوار اثرات کی حامل ہے۔ بالخصوص جب یہ کام حکام اور حکومت کے سربراہوں کے سامنے ہو اور اس سے بھی زیادہ ناگوار یہ ہے کہ یہ اخلاقی برائی ایک ثقافت اور معاشرہ کے آداب و رسوم کا جز بن جائے۔

 

حکومتوں اور رہبروں کی اہم ترین آفت جو بہت ساری ملتوں اور حکومتوں کے پیچھے رہ جانے اور پس ماندہ ہونے کا ایک سبب خوشامد اور چاپلوسی کے جذبہ کی ترویج اور رہبروں اور حکام کی تعریف و توصیف ہے۔ یہ اخلاقی برائی اور پستی باعث ہوگی کہ تنقید و تبصرہ، کمی اور نقائص کے بیان کا جذبہ ختم ہوجائے اور معاشرہ کے صحیح اور غلط، حق و باطل گڈ مڈ ہوجائیں اور روز بروز مشکلات بڑھتی جائیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ بس چاپلوس اور خوشامد کرنے والے لوگ ہی فائدہ اٹھائیں گے۔

 

یہ بری مخلوق اور موجود نظام، معاشرہ، انسانی کرامت اور لوگوں کی اخلاقی شخصیت پر مخرب اثرات مرتب ہوں گے۔ جس معاشرہ میں تنقید کے بجائے چاپلوسی اور خوشامد کا جذبہ کارفرما ہو وہاں انسانوں کی توہیں ہوگی اور ان کی عزت نفس تاراج ہوجائے گی اور معاشرہ میں علماء، دانشوروں اور ممتاز افراد پر عرصہ حیات تنگ ہوجائے گی۔ نتیجتا معاشرہ روز بروز پستی، انحطاط اور نابودی کی طرف گامزن ہوجائے گا۔

 

بنابریں امام علی (ع) کا ایک اہم حکومتی پروگرام اور مقصد افراد کی انسانی شخصیت کی پاسداری اور اس کی کرامت کا تحفظ ہے اور ان کی عزت نفس پاسبانی اور حفاظت ہے۔ اسی وجہ سے امام علی (ع) برداشت نہیں کرتے تھے کہ کوئی فرد آپ کے سامنے چاپلوسی کرسکے اور کوئی اس قسم کا کام کرسکے۔ آپ نے کسی کو اس کا موقع ہی نہیں دیا اور اس قسم کے کاموں سے بیزار رہے۔ یا آپ نے کسی کو حاکم کی چاپلوسی کرنے اور اس کو عظیم سمجھنے اور اپنی توہین کے اسباب فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہمیشہ عزت نفس اور انسانی کرامت و بزرگی کا پاس و لحاظ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کی۔ جس وقت "حرب" حضرت کے ہمراہ جارہا تھا جبکہ حضرت اپنے گھوڑے پر سوار تھی تو اسے (حرب کو) اس کام سے منع کرکے فرمایا:

واپس جاؤ کیونکہ تمہارے اور میرے جیسے لوگوں کے لئے یہ حرکت حکام کو انحراف کی طرف لے جائے گی اور مومن کی بدحالی کا سبب ہوگی۔

 

حضرت علی (ع) کی نظر میں حکام اور سربراہان مملکت کی مد و ستائش ان کو وہم میں ڈالنے کا موجب اور معاشرہ کو نمونہ بتانے کا سبب ہوگا اور مشکلات و موانع سے غفلت، اپنے فرائض سے عہدہ برآنہ ہونے اور لوگوں کے حقوق کی پامالی کا موجب ہے۔ امام علی (ع) اس قسم کی تعریف اور مدح و ثنا کو نا پسند کرنے کے علاوہ اسے انسانی کرامت کے لئے مناسب بھی نہیں جانتے بلکہ آپ کو لوگوں کو تشویق کرتے ہیں کہ خوشامد اور چاپلوسی کرنے کے بجائے حق اور تلخ باتیں اور سماجی حقائق کو بیان کریں۔ اور حضرت پر تنقید کرتے ہوئے راہ چارہ بتائیں تا کہ اجتماعی امور کا ادارہ کرنے میں خطا و لغزش سے محفوظ رہیں اور کسی کا حق پامال نہ ہو۔ کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہو۔ اس کے بارے میں امام علی (ع) فرماتے ہیں: بیشک معاشرہ کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کی پست ترین حالات شائستہ لوگوں کی نظر میں یہ ہے کہ اس گماں سے متہم ہوں کہ وہ تعریف پسند کرتے ہیں اور ان کے ملک چلانے کی سیاست کبر و نخوت پر قائم ہے۔ مجھے ہرگز پسند نہیں ہے کہ یہ نظریہ اور خیال ان کے ذہن میں جگہ بنائے کہ  میں خوشامد پسند اور چاپلوس مزاج ہوں اور اپنی تعریف سننا پسند کرتا ہوں۔

 

ایران کی جمہوری اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی (رح) اس مسئلہ پر عقیدہ رکھتے ہوئے تنقید کو صرف لوگوں کا حق ہی نہیں جانتے تھے بلکہ سب کو اس کی دعوت دیتے تھے۔ آپ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: تعمیری تنقید کا مطلب مخالفت نہیں ہوتا اور جدید مفہوم کا شکل اختیار کرنا اختلاف نہیں ہے۔ بجا اور تعمیری تنقید، معاشرہ کی ترقی اور بھلائی کا باعث ہوتی ہے لہذا کوئی بھی خود کو مطلق العنان اور تنقید و تبصرہ سے بری نہ جانے۔

 

دوسری جگہ پر فرماتے ہیں:

جمہوری اسلامی ایران میں سارے لوگ تنقید اور اعتراضات پیش کرکے معاشرہ کی سعادت اور خوش نصیبی کے لئے راستہ ہموار کریں۔ ہمیں یہ ہرگز خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ ہم جو کررہے ہیں یا جو کہہ رہے ہیں اس پر کسی کو تنقید کرنے کا حق نہیں ہے۔ اعتراض بلکہ خطایابی انسانوں کی ترقی کے لئے ایک الہی ہدیہ ہے۔

ای میل کریں