حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے سنیچر 3 ستمبر 2022 کو اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے ارکان اور اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے شرکاء سے ملاقات کی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شرکاء سے اپنے خطاب میں عالم اسلام میں اہلبیت کی عظمت و عقیدت کو بے نظیر بتایا اور زور دے کر کہا: آج اسلامی معاشروں کو تمام میدانوں میں اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کی اشد ضرورت ہے چنانچہ اہلبیت ورلڈ اسمبلی کو چاہئے کہ صحیح پروگرام تیار کرکے اور منطقی اور مؤثر وسائل سے استفادہ کر کے، اس سنگین ذمہ داری کو ادا کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو یکجہتی اور تعاون کا علمبردار ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے پہلے دن سے کہا ہے، اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی، غیر شیعوں سے مقابلے اور دشمنی کے لئے ہرگز نہیں ہے اور ابتدا سے ہی ہم نے غیر شیعہ برادران کا، جو صحیح راستے پر بڑھ رہے ہیں، ساتھ دیا ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق عالم اسلام میں فاصلوں اور تقسیم کرنے والے خطوط کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا سامراج کی موجودہ سازش ہے آپ نے کہا: شیعہ اور سنی، عرب اور عجم، شیعہ کے ساتھ شیعہ اور سنی کے ساتھ سنی کی جنگ کے لیے سازشیں تیار کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرنا بڑے شیطان یعنی امریکا کی چال ہے جو بعض ملکوں میں دیکھی جا رہی ہے جس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
انھوں نے عالمی سامراج کے مقابلے میں اسلامی جمہوری نظام کے لہراتے پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں اور شیعوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسلامی نظام، تسلط پسندانہ نظام کے سات سروں والے اژدہا (ڈریگن) کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہے اور خود سامراجی طاقتیں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ان کی بہت سی سازشیں کو اسلامی جمہوریہ نے شکست سے دوچار کر دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کے استحکام کا راز اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی ہے۔ آپ نے کہا: ان درخشاں ستاروں نے اپنی فکری اور عملی تعلیمات سے ہمیں سکھایا ہے کہ کس طرح قرآن مجید پر غور و فکر اور عمل کے ذریعے، اسلام عزیز کے راستے پر چلا جائے۔
انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو انصاف و روحانیت کا پرچم بتایا اور کہا: واضح سی بات ہے کہ سامراجی دنیا، جس کے تمام افکار و اعمال ظلم و زیادتی اور مادہ پرستی و دولت پرستی پر مبنی ہیں، اس پرچم سے ٹکراؤ اور دشمنی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگي۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کو استکباری اور سامراجی خیمے کا سرغنہ بتایا اور کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے الہام حاصل کر کے سبھی کو سکھایا کہ اسلامی معاشروں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی لائنوں کو کنارے کر دیں اور فاصلے کی صرف ایک لائن کو قبول کریں جو عالم اسلام اور کفر و سامراج کے درمیان حدبندی کی لائن ہے۔
آپ نے کہا: اسی گہرے عقیدے کی بنیاد پر، بالکل ابتدائي دنوں سے فلسطین کی حمایت، اسلامی انقلاب کے ایجنڈے میں شامل ہو گئي اور امام خمینی نے پورے وجود سے فلسطین کا ساتھ دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی عظیم الشان امام خمینی کے ذریعے طے پانے والے خطوط پر گامزن ہے اور مستقبل میں بھی فلسطین کے ساتھ رہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایرانی قوم سے پورے عالم اسلام کی تمام اقوام کی یکجہتی کا سبب، امام خمینی کی حکمت عملی یعنی عالم اسلام میں مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ خطوط کی ایرانی قوم کی طرف سے نفی کرنا ہے۔ انھوں نے کہا: اسی بنیاد پر ہم نے ہمیشہ اسلامی ممالک کو شیعہ اور سنی، عرب اور عجم اور اسی طرح کے دوسرے فاصلہ پیدا کرنے والے خطوط کو نظر انداز کرنے اور اصولوں اور بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی ہے۔
انھوں نے دیگر اقوام کو منہ زوری کے مقابلے میں استقامت کی ترغیب دلانے کو، تسلط پسندانہ نظام کی ناراضگی اور دشمنی کی ایک اور وجہ بتایا اور کہا: مختلف ملکوں میں امریکا کی مجرمانہ سازشوں کو ناکام بنانا، جس کا ایک نمونہ (دہشت گرد گروہ) داعش تھا، ایرانوفوبیا اور شیعہ فوبیا کے زہریلے پروپیگنڈوں اور ایران پر دیگر ملکوں میں مداخلت کا الزام عائد کیے جانے کا سبب بنا ہے۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کر رہا ہے، کہا کہ تسلط پسند طاقتوں کی یہ الزام تراشی اسلامی نظام کی حیرت انگیز پیشرفت کے مقابلے میں ان کی بے بسی کا نتیجہ ہے لیکن سبھی کو سامراج کی ان چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔
انھوں نے عالم اسلام کی فکری اور عملی گنجائشوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عالم اسلام کے پاس دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی بھرپور توانائی موجود ہے۔
آپ نے کہا کہ حقائق اور اسلامی تعلیمات، اللہ پر توکل، تاریخ پر پرامید نظر اور مہدویت کا عقیدہ، عالم اسلام کی فکری توانائياں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب اور لبرل ڈیموکریسی کے نظام کے فکری تعطل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: البتہ عملی میدان میں سامراجی طاقتوں نے، مختلف حیلوں سے عالم اسلام کے ذخائر سے استفادہ کر کے اور طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر کے اپنے آپ کو مضبوط بنا لیا ہے لیکن پیشرفت کے لیے عالم اسلام کے قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں جن میں سے ایک یعنی تیل اور گیس کی اہمیت آج سب کے لیے پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ عالم اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے اور شیعہ مکتب اس میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین رمضانی نے 117 ملکوں کی اہم شخصیات کی شرکت سے منعقد ہونے والے اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی جو "اہلبیت، عقلانیت، انصاف اور وقار کے محور" کے عنوان سے منعقد ہوا۔