عراق و شام کے بعد افغانستان میں حملے
امریکہ نے مشرق وسطیٰ پر غلبے کے لیے ہمیشہ منصوبہ بندی کی اور ستر (19170ء) اور اسی (1980ء) کے عشرے میں امریکی منصوبہ سازوں نے جو بنیادیں رکھی تھیں، وہ نوئے (1990ء) کے عشرے میں کھل کر منظرعام پر آ گئیں اور اب جبکہ 2019ء بھی اختتام کے قریب ہے، امریکہ کی ماضی کے سارے منصوبے ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ نے مشرق وسطیٰ کو دو اہداف یعنی اسرائیل کے تحفظ اور ایران کے اسلامی انقلاب کو نابود کرنے کے لیے انتخاب کیا تھا، یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر ہمیشہ نگاہیں مرکوز رہی ہیں، لیکن ان معدنی ذخائر تک رسائی کے لیے امریکہ کو جو ماحول چاہیے تھا، اُس کو خمینیِؒ بت شکن کے انقلاب نے خراب کر دیا تھا۔ اسلامی انقلاب سے پہلے سعودی عرب اور ایران کے بادشاہ واشنگٹن کے کاسہ لیس تھے، لہٰذا مشرق وسطیٰ امریکہ کی مکمل دتسرس میں تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امریکہ و سامراج مخالف موقف پر اس انقلاب کی قیادت کی استقامت نے امریکی تھنک ٹینک کے تمام سنہرے سپنے ڈراؤنے خوابوں میں تبدیل کر دیئے۔
ایران کے خلاف مختلف اقدامات کیے گئے، ایران کا محاصرہ کرنے کے لیے ایران کے ہمسایہ ممالک میں امریکی فوجی اڈے بنائے گئے اور عرب ممالک میں ایران فوبیا پھیلا کر سنی شیعہ جنگ شروع کرنے کی ناپاک کوششیں بھی کی گئیں۔ امریکہ نے 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق پر جارحیت کا ارتکاب کیا۔ لبنان پر صہیونی حکومت کیطرف سے حملے کرائے گئے۔ ممکنہ نتائج حاصل نہ ہونے پر 2014ء میں شام پر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بہانے شامی حکومت کی اجازت کے بغیر، امریکہ نے خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو طوالت دینے کیلئے نیا جواز بنایا۔ دوسری جانب افغانستان میں امریکہ کی انیس (19) سالہ فوجی کوشش اور ایک کھرب ڈالر کے اخراجات ہوا میں تحلیل ہو چکے ہیں، لیکن امریکہ اور نیٹو کے فوجی اب بھی افغانستان میں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں اور گذشتہ دنوں افغانستان میں قائم سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے بگرام پر ہونے والے حملے نے امریکی ناکامیوں کی قلعی کھول دی۔
افغانستان سے پہلے عراق کے معروف امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر پانچ میزائلوں سے حملے، نیز مشرقی شام میں العمر نامی آئل فیلڈ پر تعینات امریکی فوجیوں پر نامعلوم افراد کے حملے نے، اس حقیقت کو برملا کر دیا ہے کہ امریکی نہ افغانستان میں، نہ عراق میں اور نہ ہی شام میں محفوظ ہیں۔ اس بات کا دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک نے امریکی ساکھ کو زیرو اور امریکی فوج کے رعب و دبدبے کو خاک میں ملا دیا ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں آئے روز نئی سازشیں ترتیب دے رہا ہے اور بعض اسلامی ممالک میں اپنے زرخریدوں کے ذریعے بدامنی اور افراتفری پھیلانے میں بھی کسی حد تک کامیاب رہا ہے، لیکن یہ سب عارضی ہے، اس خطے میں جو چیز دائمی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے وہ امریکہ کیخلاف ہر روز بڑھتی ہوئی نفرت ہے۔ آج عراق، شام اور افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے ہوئے ہیں، اگر امریکہ نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو یہ حملے امریکی سفارت خانوں پر بھی ہو سکتے ہیں۔