اسرائیل کے خاتمے کو بہت نزدیک دیکھ رہا ہوں، سید حسن نصر اللہ

اسرائیل کے خاتمے کو بہت نزدیک دیکھ رہا ہوں، سید حسن نصر اللہ

بائیڈن مسلسل تیل اور گیس کی تلاش میں ہے

اسلام ٹائمز۔ حزب الله لبنان کے سربراہ نے کہا ہے کہ امریکہ اس خطے میں جنگ نہیں چاہتا، بلکہ وہ یوکرائن میں روس کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل کا خاتمہ بہت نزدیک ہے۔ لبنان کی مقاومتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے گذشتہ روز پیر کی شام (پچیس جولائی) عربی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے خطے اور لبنان کی تازہ ترین صورتحال پر گفتگو کی۔ گفتگو کے آغاز میں میزبان نے اپنے انٹرو میں حزب اللہ اور اس کے گذشتہ چالیس سالوں میں کیے گئے اقدامات کے بارے میں ایک تعارف پیش کیا اور کہا کہ ہماری گفتگو مقاومت اور مزاحمت، لبنان، حزب اللہ اور فلسطین، ایران اور شام، حزب اللہ، خطہ اور دنیا اور حزب اللہ کا مستقبل جیسے موضوعات کا احاطہ کرے گی۔

 

مقاومت اور مزاحمت

حزب اللہ کے قیام کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والی اس گفتگو میں سید حسن نصر اللہ نے تاکید کی کہ حزب اللہ کی مزاحمت 1985ء میں شروع ہوئی تھی، جس کی وجہ سے صیہونی دشمن مقبوضہ علاقوں سے بہت تیزی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ انہوں نے دشمن کی جانب سے بارڈر لائن کو مجاہدین کو فلسطین میں داخلے سے روکنے کے لئے حفاظتی حصار کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں بتایا کہ اس وقت مزاحمت حزب اللہ اور ان تمام مقاومتی گروپوں کا کارنامہ تھا، جنہوں نے فدائی کارروائیاں کیں۔ مزاحمت کا دوسرا مرحلہ 1993ء میں شروع ہوا، جب حزب اللہ نے سرحدی دیہاتوں میں صیہون مخالف کارروائیاں انجام دیں۔

 

بائیڈن مسلسل تیل اور گیس کی تلاش میں ہے

سید حسن نصر اللہ نے ''کاریش گیس فیلڈ'' کے مسئلے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم مزاحمت کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو ہم ہر جارحیت کا جواب دیں گے، چاہے اس کا نتیجہ جنگ ہی صورت میں کیوں نہ ہو۔ لیکن یورپ کو روسی تیل اور گیس کے متبادل کی وجہ سے لبنان ایک تاریخی موڑ پر کھڑا ہے۔ بائیڈن تیل اور گیس کی وجہ سے اس خطے میں آئے تھے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اضافی تیل سے بھی یورپ کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی۔ یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ نے انہیں روسی تیل اور گیس کا متبادل تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انہوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ امریکہ اور یورپ کو تیل اور گیس کی ضرورت ہے اور صیہونی حکومت اس مسئلے کو سنہری موقع قرار دیتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن خطے میں جنگ نہیں چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک تاریخی اور سنہری موقع ہے کہ ہم اپنے تیل کے حصول کے لئے ان پر دباؤ بڑھائیں۔ مشرق وسطیٰ میں نیٹو کے حوالے سے میں یہ ضرور کہوں گا کہ بہت سے لوگ اپنی خواہشات کے مطابق بات کرتے ہیں۔

بائیڈن نے صرف تیل کے لیے اس خطے کا سفر کیا۔ اس وقت بائیڈن اور امریکہ کی اولین ترجیح یوکرائن میں روس کا مقابلہ کرنا ہے، اسی وجہ سے وہ کسی بھی دوسری جنگ کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف بھی بائیڈن کی زبان جنگی نہیں تھی۔ وہ ایسی جنگ نہیں چاہتے جو خطے میں عدم استحکام کا باعث ہو۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کاریش گیس فیلڈ اور قانا فیلڈ کا نہیں بلکہ تیل اور گیس کے تمام ذخائر کا ہے، جن پر اسرائیل نے فلسطینی پانیوں میں قبضہ کر لیا ہے، انہوں نے واضح کیا کہ امریکیوں نے لبنان کو دریائی حدود کے مذاکرات کے بھنور میں لا کھڑا کیا ہے۔ لبنان مذاکرات میں مصروف ہے، جبکہ اسرائیل کنووں کی کھدائی کر رہا ہے اور گیس کی تلاش میں ہے۔ اب اسے نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیلی گیس نکالنے کے لیے اس میں ایک جہاز بھی لے آئے، لیکن لبنانی حکومت اس بات کی تلاش میں ہے کہ لبنان کی سمندری حدیں کہاں واقع ہیں۔

 

لبنانی حکومت امریکی پابندیوں سے خوفزدہ ہے

سید حسن نصراللہ نے کاریش گیس فیلڈ کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ اپنے اقدامات کو شام، ایران یا دیگر اتحادیوں کے ساتھ مربوط نہیں کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیل کو درآمد کرنے کے حوالے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ لبنانی حکومت کا ہے۔ میں ایران سے ایندھن درآمد کرنے کے لیے تیار ہوں، بشرطیکہ لبنانی حکومت اسے قبول کرے۔ لیکن لبنان میں کوئی بھی ایسا کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ کیونکہ لبنانی حکام اپنے خاندان پر امریکی پابندیوں سے خوفزدہ ہیں۔ آج روسی اور ایرانی کمپنیاں لبنان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہوسکتی ہیں، لیکن حکومت میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔

 

اسرائیل مقاومت کے دباؤ پر ہی لبنان کے مطالبات مانے گا

سید حسن نصر اللہ نے حزب الله کی دریائی مقاومت کی صلاحیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس حملہ آور اور دفاعی ہتھیار موجود ہیں۔ ہمارے پاس بحری مقاومت کی صلاحیت ہے۔ ہم مقبوضہ فلسطین کی بحری حدود میں کسی بھی مقام سے دشمن کو روکنے اور ان کے اہداف کو نشانہ بنانے کے قابل ہیں۔ ہمارے پاس ایسے ڈرونز ہیں، جو دشمن کی طرف سے مار گرائے بغیر جا سکتے ہیں اور واپس آسکتے ہیں۔ حسن نصر اللہ نے کہا کہ لوگوں کو ہم پر بھروسہ رکھنا چاہیئے کہ حزب اللہ اسرائیل کو لبنان کی مرضی کے تابع ہونے پر مجبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حالات جنگ کی طرف بڑھتے ہیں تو لبنانی عوام کو مقاومت پر اعتماد کرنا چاہیئے۔ اگر لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو یہ واضح نہیں ہے کہ یہ دونوں فریقوں کے درمیان رہے گی یا نہیں۔ ممکن ہے کہ دوسرے ممالک بھی اس جنگ کا حصہ بن جائیں۔

 

اسرائیل عالمی منقبت ''سلام یا مھدی'' سے خوفزدہ ہے

اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں سید حسن نے لبنان میں آنے والی ثقافتی لہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہماری حب الوطنی اور لبنانیت پر شک کرے۔ سلام یا مہدی (سلام فرماندہ) پر حملہ مقاومت پر حملہ ہے۔ یہ منقبت مقاومتی مرکز کا بہت اہم پیغام ہے۔ اس منقبت میں حصہ لینے والی نوجوان نسل اسرائیل کو خوفزدہ اور پریشان کرتی ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکہ اور مغرب کو مقاومتی ثقافت سے خطرہ لاحق ہے، اسی لئے انہوں نے اس کے مقابلے میں سمجھوتے کا کلچر رکھا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مہدوی فکر تمام اسلامی مکاتب فکر میں موجود ہے اور یہ مسئلہ اسلام سے جڑا ہوا ہے۔

 

اسرائیل کا خاتمہ قریب ہے

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ صیہونی حکومت کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہم اسے عارضی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اسرائیل کا خاتمہ بہت قریب دیکھ رہا ہوں۔ یہ کوئی پیشین گوئی یا خواب نہیں بلکہ اعداد و شمار اسی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کتنے اسرائیلیوں کے پاس دوہری شہریت ہے اور وہ اسرائیل چھوڑنے کو تیار ہیں۔ اسرائیل کا خاتمہ دیکھنے کے لیے مزید 40 سال کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری رائے میں اسرائیل کے خاتمے کا منظر یہ ہے کہ لوگ ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور بارڈر لائنز پر جائیں گے۔ بین الاقوامی تبدیلیاں بھی اسرائیل کے اختتام میں بہت موثر ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے فلسطین میں ''شمشیر قدس'' آپریشن کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ اس جنگ میں ہم نے تمام معلومات فلسطینیوں کو مشترکہ آپریشن روم کے ذریعے فراہم کیں۔ مقاومتی محور کے درمیان رابطہ موجود تھا۔ سپاہ پاسداران کی نمائندگی بھی ''شمشیر قدس'' آپریشن کے دوران اس مشترکہ آپریشن روم میں موجود تھی۔

سید حسن نے عرب ممالک میں سے شام کی جانب سے حماس کی بہت زیادہ مدد کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم حزب اللہ کی طرف سے مزاحمتی گروہوں کو اکٹھا کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ حماس میں موجود ہمارے بھائی اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ شام سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ کیونکہ یہ ملک مقاومت کا حصہ ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے یمن کے خلاف جنگ کے بارے میں کہا کہ محاصرے کے ہوتے ہوئے یمن میں جنگ بندی اور مذاکرات کو قبول کرنا موت ہے۔ اس جنگ میں حزب اللہ ثالث کا کردار ادا نہیں کرسکتی، کیونکہ ثالث کو دونوں طرف سے رعایت کی درخواست ضرور کرنی چاہیئے لیکن انصار اللہ کیا رعایت دے سکتا ہے؟ کیوںکہ محاصرے میں پھنسے افراد آپ کو کیا دے سکتے ہیں۔

 

حزب اللہ کا سعودی عرب اور امارات سے کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ حزب اللہ کے تعلقات نظریاتی مسائل پر نہیں بلکہ سیاسی مسائل کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ سعودی عرب کے ساتھ دشمنی صرف اس کے موقف تک محدود ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارا اصل مسئلہ یمن سے شروع ہوا اور اس کا تعلق اس ملک کی پالیسی سے ہے، لیکن حزب اللہ نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایسا کیا کیا ہے؟ یہ گرفتاریاں کیوں کی گئیں۔؟

 

ایران فلسطین کی حمایت کرکے خطے میں اثر و رسوخ نہیں بڑھانا چاہتا

حزب الله کے سربراہ نے اسلامی جمہوریہ ایران اور فلسطین کی حمایت کے اسباب کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران چاہے تو ماضی کی طرح خطے میں علاقائی تھانیدار کا کردار ادا کرسکتا ہے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ امریکہ سے سمجھوتہ کر لے اور مسئلہ فلسطین سے دستبردار ہو جائے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے نظریاتی اور مذہبی اصولوں کی وجہ سے فلسطین کی حمایت کرتا ہے۔ ایران فلسطینی کاز کی حمایت کے لئے تعریف اور خطے میں بڑھتے اثر و رسوخ کا خواہشمند نہیں ہے۔ ایران نے مجھ سے کبھی لبنان یا خطے کے حوالے سے کچھ نہیں مانگا۔ ایران نے داعش کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے شام اور عراق کی مدد کی۔ ایران کا اپنے دوستوں اور اتحادیوں کی حمایت کا مطلب ان پر غلبہ حاصل کرنا نہیں ہے۔ اپنی گفتگو کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ ہم ملکی مسائل کے حل کے لئے حاضر اور سرگرم ہیں، کیونکہ یہ ایک ذمہ داری ہے، جسے ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ اس سے مقاومتی بلاک میں ہماری موجودگی کو بھی تقویت ملے گی۔ ہم عوام اور سیاست کے حوالے سے کمزور نہیں ہیں۔ ہم ہر ممکن حد تک مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔

ای میل کریں