حج

حج اور دنیا کے مستضعفین

لوگ اگر یہ توقع کریں کہ اب جبکہ ہم حج پر جا رہے ہیں تو ہمارے لیے ایسی سہولتیں ہونی چاہئیں کہ جو ہمیں اپنے گھروں میں بھی میسر نہیں

حج کی حقیقت یہ ہے کہ آپ وہاں  جائیں  اور لوگوں  کا درد دل سنیں ۔ دیکھیں  کہ فقرا کس حالت میں  ہیں ۔ آپ بھی ویسی ہی حالت بنائیں ۔ دنیا کے مفلسوں  کو دیکھیں  اور پھر آپ بھی ان کے رنگ میں  رنگے جائیں ۔

لوگ اگر یہ توقع کریں  کہ اب جبکہ ہم حج پر جا رہے ہیں  تو ہمارے لیے ایسی سہولتیں  ہونی چاہئیں  کہ جو ہمیں  اپنے گھروں  میں  بھی میسر نہیں ، تو یہ حج نہیں  ہوسکتا۔ وہ حج کہ جسے خدائے تبارک وتعالیٰ نے بندوں  پر واجب قرار دیا ہے، یہ ہے کہ آپ جائیں  اور لوگوں  کی گزر وبسر کا جائزہ لیں ۔ جس زمانے میں  ہم گئے تھے اس وقت حجاز میں  رہنے والوں  کو ہم نے کسی حد تک دیکھا تھا۔ حاجی وہ حالات اب نہیں  دیکھ سکتے۔ اس زمانے میں  کہ جب ہم بس کے ذریعہ مکہ ومدینہ کے درمیان سے گزرتے تھے، اس لق ودق بے آب وگیاہ، وسیع صحرا میں  جہاں  بھی گاڑی کھڑی ہوتی تھی، جھاڑیوں  سے ایسے بچے جن کے تن پر لباس نہیں  ہوتا تھا، ایسی عورتیں  کہ جن کے پاس سوائے جسم ڈھانپنے کے، کپڑا نہیں  ہوتا تھا اور ایسے مرد کہ جن کی حالت انسان بیان نہیں  کرسکتا وہ آتے تھے اور لوگوں  سے بھیک مانگتے تھے۔ انسان کو چاہیے کہ ان کی طرف نظر کرے، یہ دیکھنے کے بعد پھر توقع کرے کہ اب جبکہ ہم حج پہ جا رہے ہیں  کارواں  جار ہے ہیں  اور معلوم نہیں  کہ کس، کس کے ساتھ جا رہے ہیں ، وہاں  ہر چیز ہمارے لیے آمادہ ہونی چاہیے۔ ایسا ہرگز نہیں  ہونا چاہیے۔

آپ کچھ توجہ ان مسائل کی طرف بھی دیں ۔ علما کرام لوگوں  کو ان مسائل کی طرف متوجہ کریں  کہ ان کی توقعات حد سے زیادہ نہیں  ہونی چاہئیں ۔

آپ کو جہاز کے ذریعے لے جاتے ہیں ۔ گزشتہ زمانوں  میں  لوگ گدھوں  پر جاتے تھے۔ کئی کئی روز سفر میں  رہتے تھے۔ بعض جگہوں  سے حج پر آنے جانے میں  چودہ ماہ صرف ہوتے تھے۔ اب آپ جہاز میں  دو تین گھنٹے آرام سے سفر کرنے کے بعد وہاں  پہنچ جاتے ہیں ۔ گزشتہ زمانے میں  وہاں  پہلے سے کوئی انتظام نہیں  ہوتا تھا، خود ہی زحمت کر کے رہنے کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ مکان بھی کثیف حالت میں  ہوتے تھے۔ اب آپ کیلئے وہاں  پر اچھے رہائشی مکانات بنا دئیے گئے ہیں ۔

ہاں ! آپ تو وہ حاجی اور مسلمان ہیں  کہ جو مسلمانوں  کی فریاد پر لبیک کہنے کیلئے گئے ہیں ۔ آپ دنیا کے مستضعفین کی مدد کو پہنچیں ۔ اپنی امیدوں  کو اس قدر بالا نہ لے جائیں  کہ خدانخواستہ ایک وقت ایسا آئے کہ یہ سہولتیں  بھی میسر نہ آئیں۔ اس وقت واقعاً مسائل بڑھ جاتے ہیں  اور ممکن ہے کہ بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑجائے۔

(صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۴۲۷)

ای میل کریں