اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی ایران و مسلح افواج کے چیف کمانڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج عالمی یوم القدس کے حوالے سے قومی ٹیلیویژن پر امتِ مسلمہ سے خطاب کیا ہے۔ اپنے خطاب میں ایرانی سپریم لیڈر نے مندرجہ ذیل نقاط پر زور دیا:
- ایران کی عظیم الشان قوم پر سلام و درود کہ جس نے آج حقیقی معنوں میں کارنامہ انجام دیا ہے اور اسی طرح عظیم امام (خمینی) پر بھی سلام و درود کہ جو ہمیشہ کی اس مبارک بنیاد کے بانی ہیں
- وہ افراد جو آج قدس شریف اور فلسطین کا دفاع کر رہے ہیں، عالمی یوم قدس کے موقع پر تمام اقوام کی جانب سے ملنے والی حمایت سے قوت حاصل کرتے اور اہم نتائج تک پہنچتے ہیں
- آج کے روز ملک بھر میں پوری عوام کی میدان میں حقیقی موجودگی، انتہائی باعظمت اور "کارنامہ" ہے۔ عوام انتہائی پرعزم انداز میں میدان میں آئے ہیں۔ یہ عظیم عوامی تحریک ایک عظیم و بابرکت کام ہے کیونکہ آپ کا سیاسی و عوامی میدان میں قدس کے دفاع کے لئے آنا، قدس کا حقیقی دفاع ہے
- وہ افراد کہ جو اپنے جسم و جاں کے ساتھ قدس اور قبلۂ اول مسلمین مسجد اقصی کا دفاع کر رہے ہیں، ایرانی قوم کی اس تحریک سے ان کے حوصلے بڑھتے ہیں اور وہ قوت و استقامت حاصل کرتے ہیں درحالیکہ خدا پر امید اور الہی توفیق کے ذریعے فلسطینی تحریک اور ان کی عظیم جدوجہد عنقریب ہی اپنے حتمی و مبارک نتائج کے قریب پہنچنے والی ہے
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں عربی زبان میں گفتگو کی جس کا لب لباب حسب ذیل ہے:
- دنیا بھر کے تمام مسلم بھائی بہنوں کو سلام! عالم اسلام کے جوانوں کو سلام! دلیر و غیور فلسطینی جوانوں اور پوری فلسطینی عوام کو سلام! ایک مرتبہ پھر یوم قدس آن پہنچا ہے۔ قدس شریف پوری دنیا کے مسلمانوں کو پکار رہا ہے
- حقیقت یہ ہے کہ جب تک غاصب و مجرم صیہونی رژیم قدس پر قابض ہے، سال کے تمام ایام کو "یوم القدس" کے طور پر منایا جانا چاہئے۔ قدس شریف نہ صرف فلسطین بلکہ پورے کے پورے غصب شدہ ملک کا قلب ہے۔ بحر سے لے کر نہر تک، سب کا سب قدس ہے! فلسطینی قوم نے ہر روز پہلے سے بڑھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بے مثال حوصلے کے ساتھ ظالم قوتوں کے سامنے کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی۔ جوان، اپنی فداکارانہ کارروائیوں کے ذریعے پورے فلسطین کی ڈھال بنے ہوئے ہیں اور (اپنے اس اقدام کے ذریعے) ایک منفرد مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں
- ہم اس سال کا روزِ قدس ایک ایسے حال میں منا رہے ہیں کہ جب رونما ہونے والا ہر واقعہ فلسطین میں، آج اور آنے والے کل کے دوران ایک نئے دفاعی توازن کی خبر دیتا ہے۔ آج فلسطین سمیت پورے مغربی ایشیاء کا "ناقابل تسخیر عزم" غاصب صیہونیوں کی (مبینہ) "ناقابل تسخیر فوج" کی جگہ لے چکا ہے۔ آج (غاصب صیہونی رژیم کی) وہ مجرمانہ فوج اپنی جارحانہ حالت کو دفاعی حالت میں بدلنے پر مجبور ہو چکی ہے
- آج سیاسی میدان میں غاصب صیہونی رژیم کا اہم ترین حامی یعنی امریکہ خود پے در پے شکستوں کا شکار ہے؛ افغانستان کی جنگ میں شکست، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی سیاست میں شکست، ایشیائی طاقتوں کے مقابلے میں شکست، عالمی معیشت کو قابو کرنے میں شکست، اپنے اندرونی معاملات کے ادارے میں شکست اور (سب سے بڑھ کر) امریکی حاکمیت کے اندر وجود میں آنے والی گہری دراڑ..
- غاصب صیہونی رژیم سیاسی و فوجی دونوں میدانوں میں مسائل کے آپس میں جڑے تانوں بانوں میں جکڑی ہاتھ پیر مار رہی ہے، اس غیرقانونی رژیم کا ماضی کا حاکم ایک جلاد تو سیف القدس مزاحمتی آپریشن میں تاریخ کے کوڑے دان کے سپرد ہو گیا جبکہ اُس کے آج کے جانشین بھی ہر گزرتے لمحے اسی جیسے کسی دوسرے مزاحمتی آپریشن کی "تیغ بُرّاں" کے منتظر ہیں
- جنین میں انجام دی جانے والی کارروائیوں نے غاصب صیہونی رژیم کو پاگل کر رکھا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے حال میں پیش آ رہا ہے کہ جب 20 سال قبل ہی اس غاصب رژیم نے نہاریا میں چند ایک صیہونیوں کے مارے جانے پر جنین کیمپ میں 200 بیگناہ افراد کا قتل عام کر ڈالا تھا تاکہ وہ اپنے زعم باطل میں جنین کے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کر ڈالے!
- سروے بتاتے ہیں کہ 1948ء و 1968ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کرنے والے تقریبا 70 فیصد فلسطینی، مزاحمتی رہنماؤں کو فوجی کارروائیوں کا حوصلہ دیتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم رجحان ہے کیونکہ اس کا مطلب "غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ مقابلے کے لئے فلسطینیوں کی مکمل تیاری" ہے جو مجاہد تنظیموں کو پورا اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی بھی مناسب موقع پر کارروائی کر ڈالیں
- 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے شمالی و جنوبی دونوں حصوں میں فلسطینیوں کی جہادی کارروائیاں اور اس کے ساتھ ساتھ اردن و مشرقی قدس شریف میں عظیم عوامی مارچ، فلسطینی جوانوں کی جانب سے مسجد اقصی کا بھرپور دفاع اور غزہ میں فوجی مشقیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ پورے کا پورا فلسطین واحد مزاحمتی میدان میں بدل چکا ہے۔ آج فلسطینی عوام جہاد کے جاری رکھنے پر متفق ہو چکے ہیں
- پیش آنے والے یہ حوادث اور جو کچھ حالیہ چند سالوں کے دوران فلسطین میں رونما ہوا ہے، نے غاصب صیہونی دشمن کے ساتھ سازباز پر مبنی تمام منصوبوں کو مٹی میں ملا کر رکھ دیا ہے کیونکہ فلسطین کے بارے کوئی بھی منصوبہ اس کے اہالیان یعنی فلسطینیوں کی غیر موجودگی میں عملی جامہ نہیں پہن سکتا؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے قبل کے اوسلو یا دو حکومتوں کے عرب منصوبے یا صدی کی ڈیل یا غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ذلیلانہ دوستی کے حالیہ معاہدوں جیسے تمام معاہدے کالعدم ہو چکے ہیں
- غاصب صیہونی رژیم البتہ اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے تاہم وہ پھر بھی اپنے جرائم کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے اسلحے کے ذریعے مظلوم عوام کی جان لینے کو تلی ہوئی ہے؛ خواتین، بچے، بوڑھے، جوان، غیر مسلح، سبھی کا قتل عام کر رہی ہے اور انہیں زندانوں میں ڈال کر شکنجے دے رہی؛ لیکن یورپ و امریکہ میں موجود انسانی حقوق کے وہ جھوٹے دعویدار جنہوں نے یوکرین کے مسئلے میں کیسا غل غپاڑہ بپا کر رکھا ہے، فلسطین میں سرزد ہونے والے ان سب جرائم کے مقابلے میں ان کے ہونٹوں پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ ایک جانب سے تو مظلوم فریق کا دفاع نہیں کرتے اور دوسری جانب خونخوار پھیڑیئے (غاصب صیہونی رژیم) کی مدد کو آن پہنچتے ہیں!
- یہ ایک عظیم سبق ہے کہ جو عالم اسلام میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث کہ جن میں مسئلۂ فلسطین سرفہرست ہے، سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ ان نسل پرست طاقتوں پر کبھی تکیہ نہ کیا جائے جبکہ عالم اسلام کے مسائل جن میں مسئلہ فلسطین سرفہرست ہے، کو صرف اور صرف اُس مزاحمتی قوت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے کہ جو قرآنی و اسلامی تعلیمات و احکام سے اخذ کی گئی ہو
- حالیہ چند عشروں کے دوران مغربی ایشیاء میں مزاحمتی محاذ کی تشکیل اس خطے میں رونما ہونے والا بابرکت ترین رجحان ہے۔ یہ مزاحمت ہی تھی کہ جس نے لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو غاصب صیہونیوں کے وجود سے پاک کیا، عراق کو امریکہ کے حلقوم سے واپس نکال لیا، عراق کو داعش کے شر سے نجات بخشی اور شامی محافظوں کو امریکی سازشوں کے مقابلے میں مدد پہنچائی
- مزاحمتی محاذ بین الاقوامی دہشتگردی کے خلاف جدوجہد لڑتا ہے، مسلط کردہ جنگ کے دوران یمنی عوام کو مدد فراہم کرتا ہے، فلسطین کے اندر غاصب صیہونیوں کی موجودگی کو خطرے سے لاحق کرتا ہے اور الہی توفیق کے ذریعے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے جبکہ یہی مزاحمتی محاذ اپنی مجاہدانہ کوششوں کے ذریعے مسئلۂ قدس و فلسطین کو پوری دنیا کی رائے عامہ میں توجہ کا مرکز بنا رہا ہے
- آپ فلسطینی عوام، آپ مغربی کنارے اور 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے فداکار جوانو، آپ جنین کیمپ کے جنگجوؤ، آپ قدس و غزہ کے مجاہدو اور آپ فلسطین سے باہر کے کیمپوں میں رہائش پذیر فلسطینیو! آپ ہی مزاحمتی محاذ کا اہم، حساس اور محرک حصہ ہو!
- آپ پر درود و سلام! اٹھ کھڑے ہوئیے اور جان لیجئے کہ "اِنَّ اللَّهَ یُدافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنوا"، "لَئِن صَبَرتُم لَهُوَ خَیرٌ لِلصّابِرین"، "وَ اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِن عَزمِ الاُمور" اور "سَلامٌ عَلَیکُم بِما صَبَرتُم فَنِعمَ عُقبَى الدّار"!
- اسلامی جمہوریہ ایران مزاحمتی محاذ کا حامی اور جانبدارا ہے، فلسطینی مزاحمت کا حامی و طرفدار ہے، ہم نے ہمیشہ یہی کہا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور اس کے پائیبند رہے ہیں۔ ہم "غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات" کی خیانت آمیز حرکت کی مذمت کرتے ہیں، ہم گھٹنے ٹیک دینے کی سیاست کی پرزور مذمت کرتے ہیں!
- یہ کہ بعض عرب ممالک نے امریکہ کو کہا ہے کہ وہ فلسطین کے مسئلے کے حل میں جلدی سے کام لے؛ تو اگر ان کی مراد یہ ہے کہ (امریکہ) خطے سے باہر نکلنے سے قبل غاصب صیہونی رژیم کو مضبوط بنانے میں موجود تمام رکاوٹیں ہٹا دے تو پہلی تو بات یہ ہے کہ انہوں نے خیانت کی ہے اور انہوں نے پوری عرب دنیا کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے اور دوسری یہ کہ انہوں نے انتہائی سادگی سے کام لیا ہے کیونکہ ایک اندھا کسی دوسرے اندھے کے لئے سہارا ہرگز نہیں بن سکتا!
- میں آخر میں فلسطینی شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں، ان کے صابر خاندانوں کے لئے احترام بجا لاتا ہوں، فلسطینی اسیروں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ جس استوار عزم کے ساتھ مزاحمت کر رہے ہیں، میں ان فلسطینی ہاتھوں کو چومتا ہوں کہ جو اس عظیم (مزاحمتی) ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اور پوری اسلامی دنیا خصوصا اس کے جوانوں کو اس عزت و کرامت کے میدان میں دعوت دیتا ہوں!
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔