تحریر: امیر علی
اہلبیت اطہار علیہم السلام کی زندگی کا مطالعہ اور اس میں غوروفکر انسان کو ایسا رول ماڈل فراہم کرتا ہے جس کی مدد سے وہ اعلی مراتب اور حقیقی سعادت تک پہنچ سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم نے پیغمبر اکرم (ص) کے بارے میں فرمایا: "بے شک رسول خدا (ص) تمہارے لئے بہترین اسوہ ہیں۔" اس آیت کریمہ کا ایک مصداق اہلبیت اطہار علیہم السلام بھی ہیں۔ اہلبیت علیہم السلام کی سیرت میں بے شمار تربیتی نکات اور اسوے پائے جاتے ہیں جن کا بغور جائزہ انسان کی سماجی اور سیاسی زندگی میں بھی انتہائی مفید واقع ہوسکتا ہے۔ ہر معصوم کی زندگی کا مطالعہ، انسانی معاشرے کی ترقی اور اعلی اقدار کی جانب گامزن ہونے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی شخصیت ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا نمایاں پہلو خدا کی راہ میں جہاد، شہادت اور امر بالمعروف اور نہی از منکر پر مشتمل ہے۔ بے شک معصوم امام، خدا کی جانب سے انسانی معاشرے کیلئے ایک انمول تحفہ ہے اور وہ ایک خاص مسلک اور فرقے سے بھی مخصوص نہیں ہے۔ لہذا امام حسین علیہ السلام پوری دنیا کے حریت پسند اور حق طلب انسانوں کیلئے بہترین رول ماڈل ہیں۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی مجالس اور دیگر تقریبات میں ہر مذہب اور مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوتے ہیں تو اس کی بھی یہی وجہ ہے۔ لہذا امام حسین علیہ السلام کی سیرت بہت زیادہ تربیتی نکات پر مشتمل ہے اور اس میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے انسان کیلئے قیمتی سبق موجود ہیں۔
مکتب امام حسین علیہ السلام ایک خاص قسم کی طرز زندگی کا حامل ہے۔ اس طرز زندگی کی ایک بڑی خصوصیت دیگر انسانوں سے محبت ہے۔ آج عالمی طاقتیں اور عالمی ادارے محض ظاہری حد تک اور دوسروں کو دھوکہ دے کر اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے انسانی حقوق اور انسانوں سے ہمدردی کا نعرہ لگاتے ہیں جبکہ وہ خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پامالی میں مصروف ہوتے ہیں۔ یمن، افغانستان، عراق، فلسطین اور دیگر حصوں میں انجام پانے والے جارحانہ اقدامات اور ان پر عالمی طاقتوں اور اداروں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ مکتب اہلبیت اطہار (ع) کی روشنی میں ہر انسان قابل احترام ہے اور کسی کو اس کے بنیادی حقوق چھیننے کا حق حاصل نہیں ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورہ بھی اپنے مدمقابل دشمنوں کو ایسے انسانوں کے طور پر دیکھا جو حقیقت سے دور ہو کر جہالت کا شکار ہو چکے ہیں لہذا انہیں آگاہ کرنے اور غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی۔ سید الشہداء (ع) نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک انہیں نصیحت کی اور انہیں پستی سے نجات دینے کیلئے کوشاں رہے۔ عاشورہ کے دن جب امام حسین علیہ السلام کے تمام عزیز و اقارب اور اصحاب شہید ہو گئے اور آپ (ع) اکیلے رہ گئے تب بھی مدمقابل لشکر کو انسانی اور اخلاقی اقدار کی جانب واپس آنے کی دعوت دیتے رہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معصوم امام کے دل میں تمام انسانوں کیلئے محبت اور ہمدردی پائی جاتی ہے اور وہ ہر انسان کی ہدایت اور اسے حقیقی سعادت تک پہنچانے کیلئے پوری کوشش کرتا ہے۔
لہذا امام حسین علیہ السلام ایک گناہگار شخص کو بھی محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جبکہ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ گناہگار شخص کو حتی انسان بھی نہیں سمجھا جاتا اور اسے انسانیت کے دائرے سے بھی خارج کر دیا جاتا ہے۔ مکتب امام حسین علیہ السلام میں انسانیت کے مختلف پہلووں کو مدنظر قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک پہلو ضرورت مند اور محتاج افراد کی مدد کرنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام سخاوت کا مظہر تھے۔ وہ کسی کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے تھے۔ آپ (ع) کی اس سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دولت اور مال انسانیت کی ترقی کیلئے خرچ ہونا چاہئے۔ مکتب امام حسین علیہ السلام کا ایک اور پہلو علم کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہے۔ جس طرح اسلامی متون میں علم اور حصول علم کی اہمیت اور قدر بیان کی گئی ہے اسی طرح مکتب امام حسین علیہ السلام میں علم ایک خاص مقام کا حامل ہے۔
مکتب حسینی (ع) کے طرز زندگی کی ایک اہم خصوصیت خدا کے راستے میں جہاد اور شہادت ہے۔ دین مبین اسلام میں جہاد اور شہادت کا بنیادی مقصد انسانی معاشرے کی حقیقی سعادت اور کمال کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ ایسی ہی رکاوٹوں میں سے ایک طاغوتی حکومتیں اور طاغوتی حکمران ہیں۔ طاغوتی حکومت جس معاشرے پر بھی حکمفرما ہوگی وہاں انسانوں کو پسماندہ اور جاہل رکھے گی۔ لہذا انسانوں کو ایسی حکومت سے نجات دلوانا جہاد اور شہادت کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنے زمانے کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اسی راستے میں شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔ آج بھی مکتب حسینی (ع) کے پیروکار دنیا کے مختلف حصوں میں طاغوتی طاقتوں اور ان کے کٹھ پتلی عناصر کے خلاف جذبہ شہادت کے تحت جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہیں۔