حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دفتر وحدت مسلمین پاکستان شعبہ مشہد مقدس مؤسسہ شہید عارف الحسینی کے زیر اہتمام شہید حاج آقا قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کی مناسبت سے دفتر مجلس وحدت شعبہ مشہد مقدس میں "مکتب شہید سلیمانی" کے عنوان سے سیمینار منعقد ہوا۔سیمینار میں علمائے کرام،طلاب عظام اور زائرین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔ سیمینار کے پہلے خطیب ریاست محترم جامعتہ المصطفی العالمیہ واحد مشہد مقدس حجت الاسلام آغا محمد رضا صالح نے اپنے خطاب میں شہید قاسم سلیمانی کے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ شہید قاسم سلیمانی ایام فاطمیہ میں اپنی تمام تر مصرفیات کو چھوڑ کر ایام فاطمیہ کی مجالس میں شرکت کرنے کے لئے اپنے آبائی شہر کرمان تشریف لے آتے اور مجالس فاطمیہ کے سارے انتظامات خود کرتے تھے۔ ان کو جناب سیدہ سے خاص ارادت تھی۔ شہید اہل اشک تھے، جب بھی جناب سیدہ کا نام زبان پرآتا یا کہیں سنتے تو زاروقطار گریہ کرنا شروع کر دیتے، شہید قاسم سلیمانی گمنامی کو پسند کرتے تھے۔ وہ شہرت طلبی سے دور بھاگتے تھے۔وہ شہادت سے تقریبا ایک سال قبل عوام میں مشہور ہوئے، ورنہ وہ اپنی خدمات کو ھمیشہ مخفی رکھتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی قبر مطہر پر فقط سرباز قاسم سلیمانی لکھنےاور دوسرے شہداکے ساتھ دفن کرنے کو کہا۔ وہ خود کو دوسرے شہدا کے برابر رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام فاطمیہ میں کہا تھا کہ شاید میں اگلے ایام فاطمیہ میں نہیں رہونگا، گویا کہ جیسے وہ اپنی شہادت کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ انکا مزید کہنا تھا شہید قاسم سلیمانی اپنے وطن سے بے حد محبت کرتے تھے۔ یقینا وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، ان کی ایران کے لئے بہت ساری خدمات ہیں۔ جن کا یہاں پر تذکرہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، وہ محب وطن تھے لیکن وہ بین الاقوامی شخصیت کے مالک تھے، وہ امن چاہتے تھے۔ مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے صف اول میں رہے، خود دشمن بھی ان کی قابلیت اور ذہانت کے معترف تھے،آغا صالح نے اپنے خطاب میں شہید قائد سیدعارف حسین الحسینی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: جب بھی میں شہید قائد کی تصویر دیکھتا ہوں تو ان کی صداقت دیکھتا ہوں۔ وہ یقینا عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے۔ آخر میں انہوں نےتمام شہدائے اسلام بالخصوص شہید قاسم سلیمانی اور شہید قائد علامہ سیدعارف حسین الحسینی کے بلندی درجات کے لئے خصوصی دعا کی۔
سیمینار کے دوسرے خطیب سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان حجت الاسلام ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی تھے۔ انہوں نے مکتب شہید سلیمانی کے بارے میں گفتگو کی- انہوں نے اپنے خطاب میں مکتب کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: مکتب کہ جسے انگلش میں(school of thought) کہتے ہیں، مکتب یعنی ایک نقطہ فکر پر جمع ہونا، یعنی فکر کا فلسفی ہونا،اجتماعی ہونا،سیاسی ہونا، فنی امور ہوں یا فرھنگی ہوں، ایسی تحریک ،ایسی نہضت ،ایسا انقلاب جس پر سب اکھٹے ہوجائیں، اسے مکتب کہتے ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا:شہید قاسم سلیمانی کی بیٹی نے بھی کئی مرتبہ مکتب سہید سلیمانی کی طرف اشارہ کیاہے۔وہ کہتی ہیں کہ مکتب قدیم ہوتا یاجدید ہوتا ہے۔ جب جہاد کا تذکرہ ہوتا ہے تو یقینا ذہن جنگ و جدال کی طرف جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں دیکھا جائے تو جہاد تیر، تلوار اور نیزوں سے ہوتا تھا اور آج کے جدید دور میں ٹینک اور جدید قسم کا اسلحہ ہے۔ علما اس جہاد کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ جہاد اکبر یا جہاد اصغر۔ جھاد اصغر وہی تیر و تلوار والی جنگ و جدال اور جہاد اکبر یعنی اپنی نفس کو پاک و پاکیزہ رکھنا۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی نفس کو پاکیزہ رکھا اور جام شہادت نوش کیا۔ قرآنی آیات کی روشنی میں انکا کہنا تھا صبر کی دو قسمیں ہے: صبر کی پہلی قسم یہ ہے کہ اپنی ذات پر جو مصیبتیں اور مشکلات آئیں، ان پر صبر کرنا دوسری قسم من حیث القوم، ملت، ملک، مکتب اور وطن پر آنے والی مشکلات پر صبر کرنا ہے۔جس مکتب کا شہید قاسم سلیمانی نے ہمیں درس دیا ہے، وہ مکتب، مکتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ہے، وہ مکتب مکتب امام حسین علیہ السلام اور مکتب امام زمان علیہ السلام ہے،یہ مکتب، مکتب مزاحمت ہے، مکتب مقاومت ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری چاہتے ہیں کہ اقوام اور ملکوں کو مذہبی،علاقائی اور لسانی بنیاد پہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیں، جس میں سوریہ،عراق،ایران،افغانستان شامل ہے، وہ اپنے مرضی کے حکمران مسلط کرنا چاہتےہیں۔ اس نقشے کو ناکام کرنے کے لئے بہت خون دیا گیا، اس کے لئے بہت سی قربانیاں دی گئیں۔ ان کے عزائم کو خاک میں ملانے والے کا نام مکتب شہید قاسم سلیمانی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ آل سعود پہلے سے یہی آل سعود ہیں، جس نے مقدس مقامات کو منہدم کیا۔آج کے زمانے میں ایسا کیوں نہیں کرپائے ہیں؟ یقینا یہ مکتب شہید قاسم سلیمانی کی ہی برکت سے ہے۔حرم جناب سیدہ زینب کبری سلام اللہ علیہا کی ضریح مبارک کی دیواروں پر باقاعدہ لکھا تھا کہ اس حکومت کے ساتھ ساتھ یہ ضریح بھی منہدم ہوگی۔ اگر آج تمام مقدسات سالم ہیں، یقینا مکتب شہید سلیمانی کی بدولت صحیح و سالم ہیں۔داعش کربلا معلی تک پہنچنے والے تھے، انکو شہید قاسم سلیمانی نے روکا، انہوں نے اپنا خون دیکر مکتب رسول کی حفاظت کی، ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کا نقصان ھم سب کا نقصان ہے، یقینا آج ایک ایرانی جرنیل کا خون نہیں گرا ہے، بلکہ محسن انسانیت کا خون گرا ہے۔شہید کے شہادت سے انکا مکتب ختم نہیں ہوا ہے، انکے سپاہی اس مکتب کو آگے بڑھائیں گے۔ رہبر معظم فرماتے ہے: ہم شہید عزیز کو ایک مکتب،ایک راستے اور ایک تربیت گاہ کے عنوان سے دیکھیں۔ شھید قاسم سلیمانی کی خصوصیات میں سے ایک دو نقطوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: شہید کی قرآن و اہلبیت علیہم السلام سے خاص انسیت تھی، انہیں مظلوموں کی قدرت پر یقین تھا جب انہوں نے اپنا فارمولا یوز کیا تو دنیا کے کونے کونے سےلبیک یا حسین اور کلنا عباسک یا زینب کی صدائیں بلند ہوئیں، وہ جانتے تھے کہ جیت ھمیشہ حق کی ہوتی ہے اور ہمارا مکتب حق پر ہے اور جو حق پہ ہو، یقینا پرودگار اسے فتح نصیب فرماتا ہے، شہید قاسم سلیمانی کو مبداء اور مقصد پر یقین تھا، ہمیں بھی چاہیے کہ مبداء اور مقصد پر یقین رکھیں۔سیمینار کی نظامت کے فرائض حجت الاسلام شیخ عارف حسین صاحب نے انجام دئیے۔