نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصیات اور عادات
انسان کی ایسی باطنی خصوصیات جو عادات میں بدل جائیں، انہیں اصطلاح میں خُلق کہتے ہیں۔ خُلق کا مادہ (خ،ل،ق) ہے اگر لفظ خ کے اوپر زبر پڑھیں، یعنی خَلق پڑھیں تو اس کے معنی ہیں ظاہری شکل و صورت اور اگر خ پر پیش پڑھیں یعنی خُلق پڑھیں تو باطنی اور داخلی و نفسانی شکل و صورت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاََ اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں انسان خُلق و خَلق دونوں اعتبار سے نیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ظاہری صورت بھی اچھی ہے اور باطنی صورت بھی، جس طرح انسانوں کی ظاہری شکل و صورت مختلف ہوتی ہے، اسی طرح باطنی شکل و صورت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اخلاق انسانی زندگی کا جوہر ہے۔
اچھی عادات کی اہمیت
اگر ایک انسان میں اخلاق یعنی اچھی عادات نہیں تو گویا وہ کچھ بھی نہیں۔ آج معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاق سے دوری ہے۔ معاشرے میں بے راہ روی کی وجہ بھی اخلاقی بحران ہے۔ انسان جب تک خود کو اخلاقی حوالے سے بہتر نہیں بنائے گا، اس وقت تک معاشرہ بہتری کی طرف نہیں بڑھے گا۔
نبی اکرمﷺ کی عادات
انسانی شخصیت اپنی عادات سے پہچانی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات یعنی اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید کی گواہی موجود ہے: اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ ’’بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘ قرآنی شہادت کے بعد تخلیق کائنات کا سبب حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نورانی ارشاد اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق۔ یعنی ’’میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘ دوسری روایت میں حُسْنَ الْاَخْلَاق کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی کائنات کی سب سے عظیم ہستی کو مبعوث ہی اخلاق کے سدھار کیلئے کیا گیا ہے۔
ہماری عادات اور نبی ؐ کا اسوہِ حسنہ
آج کا ہمارا اسلامی معاشرہ اکثر و بیشتر اخلاق ِنبوی سے خالی اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عاری ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ جس نبیﷺ کا کلمہ پڑھ کر ہم مسلمان ہوئے ہیں، اُسی کی سیرت اور اخلاق سے ہم اجنبی کیوں ہیں؟ ہماری اصل مشکل یہاں ہے کہ ہم زبان سے جس کی رسالتﷺ کی گواہی دیتے ہیں، عملاً اُس کی تعلیمات کی پرواہ نہیں کرتے۔ چنانچہ جتنا ہم اپنے نبیﷺ کے اخلاق سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اتنا ہی ہم تنزل کر رہے ہیں۔ سوچئے تو سہی کہ جس ہستی کا نام لینے سے انسان پاک ہو جاتا ہے (کافر اگر کلمہ پڑھے تو پاک ہو جاتا) تو ایسی ہستی کی سیرت و اخلاق پر عمل سے انسان کہاں پہنچ سکتا ہے۔۔۔؟؟؟ آئیے ہم فرموداتِ نبوی ؐ سے عاداتِ نبوی ؐ کو سمجھنے اور انہیں اپنانے کیلئے رہنمائی لیتے ہیں۔
فرموداتِ نبوی سے رہنمائی
روایت میں ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔" راوی بیان کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتً اَنْ یطلع علیہ النَّاسُ۔ (مسلم) یعنی ’’نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے اور گناہ وہ ہے، جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے، جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تَقوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلْقِ یعنی "خدا خوفی اور حسن خلق۔" پھر عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے، جو لوگوں کو کثرت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔ فرمایا: الْفَمُ وَالْفَرْجُ یعنی "منہ اور شرمگاہ" (ترمذی) ایک اور روایت میں یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا (ترمذی) یعنی ’’مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں، جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
عاداتِ نبویؐ اپنانے کا ثمر
مندرجہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی اچھائی دراصل ایمان کی پختگی اور خدا خوفی کا ثمر ہے اور دراصل یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان کے بغیر اخلاقی پاکیزگی کا اور کردار کی اچھائی کے بغیر خدا ترسی اور خدا خوفی کا تصور بے معنی ہے۔ اسی حسنِ خلق کی بدولت مومن کو اطمینانِ قلب کی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے، اور اس کا یہی اطمینانِ قلب اس کو سیرت و کردار کی وہ عظمت عطا کرتا ہے کہ اس کے بعد نفس کی کوئی ترغیب، شیطان کی کوئی تحریک، دنیا کی کوئی تحریص اور اقتدارِ باطل کی کوئی دھمکی اس کو راہِ راست سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ایک غلط فہمی
اَخلاق سے متعلق ایک سنگین غلطی اور بڑی غلط فہمی جس میں بعض لوگ مبتلا ہیں، وہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں نے صرف رحم و رأفت اور تواضع و انکساری کو پیغمبرانہ اخلاق کا مظہر سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اخلاق یعنی اچھی عادات کا تعلق زندگی کے تمام پہلوؤں اور گوشوں سے ہے۔ دوست و دشمن، عزیز و بیگانہ، چھوٹے بڑے، مفلسی و توانگری، صلح و جنگ، گرفت و مؤاخذہ، عفو و درگزر اور خلوت و جلوت، غرض ہر جگہ اور ہر مورد تک دائرہ اخلاق کی وسعت ہے۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقام لینا احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگرچہ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا، لیکن اگر کسی نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کیا اور حدودِ اسلام سے تجاوز کیا تو ضرور اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتے تھے۔ چنانچہ صحیحین میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات میں کسی سے انتقام نہیں لیا، البتہ جس چیز کو خدا تعالیٰ نے حرام کیا ہے، اگر اس کو حلال کیا گیا تو آپ ضرور انتقام لیتے تھے۔
یہی مضمون مسلم میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، حتی اپنے خادم کو بھی، مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی راہ میں جہاد کرتے (تو اپنے ہاتھ سے دشمنوں کو مارتے تھے) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی چیز سے (تکلیف) پہنچتی تو آپ اس کا انتقام نہ لیتے تھے۔ مگر جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی سزا ضرور دیتے تھے۔ صاحب بخاری نے اپنی صحیح میں ’’باب ما یجوز من الغضب والشدۃ لأمر اللّٰہ‘‘ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے۔ محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لوگوں کی اذیت پر صبر کرنا اور اپنی ذات کے لئے ان سے انتقام نہ لینا اور ان سے شفقت اور نرمی والا برتاؤ کرنا اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ میں شامل تھا، تاہم دین اور شریعت اور اللہ کے احکام کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رعایت نہیں فرماتے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اللہ کے دشمنوں کفار کے ساتھ سخت برتاؤ کا حکم دیا۔ لہذا اخلاق و سیرت کے عناوین کو سمجھنا بھی ایک حقیقی عاشق رسول کی ذمہ داری ہے۔