کیا طالبان امام خمینی(رح) کے سیاسی افکار سے متاثر
افغانستان سے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ کا باضابطہ انخلا مکمل ہونے کے بعد اب طالبان نے حکومت سازی کے لیے مشاورت تقریباً مکمل کرلی ہے اور تین روز کے اندر باقاعدہ طور پر نئی حکومت کا اعلان کر دیا جائے گا۔ لہذا اب تمام دنیا کو طالبان کی نئی حکومت کے اعلان کا انتظار ہے۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اور قطر میں سیاسی دفتر کے نائب انچارج شیر محمد عباس ستانکزئی نے آج بی بی سی کے پشتو ریڈیو کو انٹرویو کے دوران اب تک پس پردہ رہنے والی کئی خبروں سے پردہ اٹھا دیا، انہوں نے تصدیق کی کہ امارت اسلامی کی حکومت پر مشاورت مکمل ہوگئی ہے اور آئندہ 3 روز میں اس کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی اسلامی امارت ایک ایسی حکومت بنائے گی، جس میں تمام اقوام اور طبقات کی نمائندگی ہوگی اور جسے اندرونی اور بیرونی طور حمایت بھی حاصل ہوگی، نئی حکومت میں با تقویٰ، پرہیزگار اور تعلیم یافتہ افراد شامل ہوں گے۔
عباس ستانکزئی نے مزید کہا کہ خواتین بھی حکومت کا حصہ ہوں گی، تاہم 20 برسوں سے کسی نہ کسی شکل میں حکومت میں رہنے والے ہماری حکومت میں نہیں ہوں گے۔ طالبان کی حکومت میں خواتین کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں اور انھیں شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے دفاتر میں کام کرنے کی مکمل آزادی بھی ہوگی۔ امارت اسلامی امریکا سمیت یورپی یونین اور دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے اور قطر میں اُن کے سیاسی دفتر کے اراکین مختلف ممالک سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ طالبان کے ایک اور اہم رہنماء انعام اللہ سمنگانی نے طلوع نیوز کو بتایا کہ طالبان کے رہنماء ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ نئی حکومت کے سربراہ ہوں گے۔ خیال رہے کہ افغان طالبان پہلے ہی عبوری گورنرز، پولیس چیفس، صوبوں اور اضلاع کے لیے پولیس کمانڈرز کا اعلان کرچکے ہیں، البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ نئی افغان حکومت کا نظام پارلیمانی ہوگا، صدارتی یا پھر خلافت کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار محمد حسن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں نئے نظام کا نام نہ جمہوریہ ہونا چاہیئے، نہ خلافت بلکہ یہ اسلامی حکومت کی طرح کا ہونا چاہیئے۔ ہیبت اللہ کو حکومت کا سربراہ ہونا چاہیئے، البتہ وہ صدر کے عہدے پر فائز نہیں ہوں گے بلکہ وہ افغانستان کے سربراہ ہوں گے۔ ان کے ماتحت وزیراعظم یا صدر ہوگا، جو ان کی نگرانی میں معاملات چلائے گا۔ افغانستان میں اسی قسم کے طرز حکومت کا دعویٰ ایک امریکی ٹی وی نے بھی کیا ہے، جس کے مطابق ’’طالبان ایرانی حکومت کی طرح اپنے گروپ کے سربراہ ہبت اللہ اخوانزادہ کو سپریم لیڈر نامزد کریں گے۔‘‘ دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان ایرانی طرز حکومت میں دلچسپی رکھتے ہیں، جس میں صدر اور کابینہ تو موجود ہوتے ہیں مگر سپریم لیڈر بطور مذہبی رہنماء تمام اختیارات اپنے پاس رکھتے ہیں، سپریم لیڈر صدر کے احکامات کو بھی ناقص العمل قرار دے سکتے ہیں اور وہی تمام فیصلوں میں سب سے طاقتور آواز رکھتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا اداروں کے مذکورہ بالا دعووں کا جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ مسلم دنیا میں کامیاب، جمہوری، مضبوط، فلاحی اور مذہبی نظام جمہوری اسلامی ایران میں نافذ ہے، ویسا دنیا میں کہیں نہیں اور اس نظام کا مرکزی ستون ولی فقیہ ہے، عام اصطلاح میں اس نظام حکومت کو نظام ولایت فقیہ کہا جاتا ہے، جس کی بنیاد رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) نے انقلاب اسلامی کامیاب ہونے کیساتھ رکھی۔ افغان طالبان بھی اپنے ملک میں اسلامی نظام رائج کرنے کے خواہاں ہیں، طالبان اپنے ماضی کے دور حکومت کی غلطیوں سے بظاہر بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور وہ یقینی طور پر اسلامی نظام حکومت چلانے کیلئے مختلف طرز حکومت اسلامی کا جائزہ لے رہے ہوں گے، عین ممکن ہے کہ مسلکی اختلاف کے باوجود انہیں ایران میں رائج نظام ولایت فقیہ میں ہی اپنی اور اپنے وطن کی فلاح اور بہتر مستقبل نظر آیا ہو، لہذا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہیبت اللہ اخوند زادہ کو بطور سپریم لیڈر متعارف کرائیں، جو صدر یا وزیراعظم کے منصب سے بالا ہو۔
طالبان اگر ملک میں حقیقی استحکام، ملکی سلامتی و خود مختاری، معاشی ترقی اور امن چاہتے ہیں تو ایران کی حکومت، خاص طور پر نظام ولایت انہیں بہترین گائیڈ لائن فراہم کرسکتا ہے۔ طالبان کو اپنی سابقہ روش کو بدلنا ہوگا، دیگر مسالک اور اقوام کو کشادہ دلی کیساتھ قبول کرنا ہوگا۔ معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً خواتین کو بھی ان کے جائز اسلامی حقوق دینا ہوں گے، ملک میں تعلیم کے فروغ کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، بیرونی مداخلت کے خاتمے کیلئے ملک کی بنیادیں مضبوط کرنا ہوں گی، پڑوسی ممالک کیساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہوگا اور اس سب سے بڑھ کر اپنے شدت پسندانہ رویہ کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ہیبت اللہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان میں ماضی کے طالبان امراء کی نسبت کافی لچک ہے اور وہ معاملات کو سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں، ایسے میں طالبان امیر ہیبت اللہ اخونزادہ کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہوگا۔