امام حسین علیہ السلام نے عظیم قربانی دے کر قوم کی اصلاح کی ہے
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک ہدف اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی، اور یہی تمام انبیاء و اولیائے کرام کا ہدف تھا۔ امام خمینیرح اس سلسلے میں فرماتے ہیں، "تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی ان سب کا مسئلہ یہی تھا کہ فرد معاشرے پر قربان ہو جائے اور یہ فرد جس قدر عظیم اور بڑا ہی کیوں نہ ہو جب معاشرے کی مصلحت کے ساتھ اس کا ٹکراؤ ہو تو اسے معاشرے پر اپنے آپ کو فدا کرنا چاہیئے"۔ ایک اور مقام پر امام خمینی (رح) فرماتے ہیں، "سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے اسی معیار کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے اصحاب و انصار کو اسلامی معاشرے کی اصلاح کی خاطر قربان کیا ۔ "و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معهم الکتاب و المیزان، لیقوم الناس بالقسط"۔ 8 اسی طرح آپ فرماتے ہیں، "امام حسین علیہ السلام کے اوپر یہ ذمہ داری تھی کہ آپ قیام کریں اور اپنے پاکیزہ خون کو اسلام پر قربان کریں تاکہ ملت کی اصلاح ہو اور آپ نے ایسا ہی کر دیا"۔۹۔ امام خمینی فرماتے ہیں امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: "انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولاظالما انما خرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدی و ابی علی بن ابی طالبؑ"۔۱۰۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے علماء دین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے جو عالمانہ خطبہ ارشاد فرمایا اس میں بھی بنی امیہ کے خلاف اپنے قیام کو معارف دینی کی ترویج ، اسلامی معاشرے کی اصلاح، مظلوم افراد کی فریاد رسی، قرآنی تعلیمات اور دستورات اسلامی کا اجراء قرار دیا۔۱۱
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک ہدف بنی امیہ کی طرف سے ہونی والے ظلم و ستم اور ناانصافی تھی۔ امام خمینی اس بارے میں فرماتے ہیں، "امام حسین علیہ السلام اور امام زمان (عج) اسی طرح تمام انبیاء کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ ظالم و جابر حکومت کے مقابلہ میں ایک الٰہی حکومت تشکیل دے۔ اسی طرح فرماتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد شروع سے ہی عدل کا نفاذ تھا اور اپنی پوری زندگی ظالم و جابر حکومت کے خاتمہ میں صرف کی۔ ایک اور مقام پرآپ فرماتے ہیں، "امام حسین علیہ السلام کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ سب خدا کی راہ میں قربان کر دیا اور اسلام کی تقویت کی خاطر ظلم کے خلاف قیام فرمایا"۔ امام خمینی ایک اور جگہ فرماتے ہیں، "سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایک ظالم و جابر جب ایک رعایا پر حکومت کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا، اگر کوئی ظالم و جابر لوگوں پر حکومت کرے اور ان پر ظلم و ستم روا رکھے تو لوگوں کو چاہیئے کہ اس کا مقابلہ کرے اور اس کے خلاف قیام کرے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے، جو کوئی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کا مقام بھی یزید جیسے جابر و ظالم کا مقام ہے"۔ ۱۲۔ امام خمینی فرماتے ہیں، ایک اور مقام پر امام حسین علیہ السلام خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں، "میں موت کو سعادت جبکہ ظالمین کے ساتھ زندگی کرنے کو ننگ و عار سمجھتا ہوں"۔ "انی لا اری الموت الا السعادة و الحیاة مع الظالمین الا برما"۔ ۱۳ امام علی علیہ السلام علماء ربانی کے وظائف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظالموں کے ظلم اور مظلومین کی آواز پر خاموش نہیں رہنا چاہیئے۔۱۴اسی طرح امام علی علیہ السلام کے اس عہد نامہ میں جسے آپ نے مالک اشتر کے نام لکھا اس میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں عدل کا قیام حکمرانوں کے لئے بہترین تخفہ