عید مباہلہ پر ایک طائرانہ نگاہ
24 ذیحجہ 9ہجری آ پہنچا۔مدینہ منورہ کے اطراف و اکناف میں رہنے والےلوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ ؛ اگر آج محمد ﷺاپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔
سبھوں کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں ؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے ۔ پیغمبر خدا ﷺ ایک ہاتھ سے حسن بن علی 8 کا ہاتھ پکٹرے اور دوسرے ہاتھ سےحسین بن علی 8کو آغوش میں لئے بڑ رہے ہیں ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی حضرت فاطمۃ زہرا 3 چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے امیر المومنین علی7ہیں۔
صحرا میں ہمہمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں کوئی کہہ رہا ہے دیکھو، پیغمبرﷺ اپنے سب سے عزیزوں کو لےآیا ہے۔دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے ۔اس بیچ جب بڑے پادری ابو حارثہ کی نظریں پنجتن پاک : پر پڑی تو کہنے لگا : ہاے رے افسوس اگر اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اسی لمحے میں ہم اس صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔دوسرے نے کہا؛تو پھراس کا سد باب کیا ہے؟جواب ملا اس(پیغمبر خداﷺ) کےساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی ۔
مباہلہ پیغمبر کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے ۔ مباہلہ پیغمبر خدا 6کےاہل بیت: کا اسلام پر آنے والے ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الہی منشور کا نام ہے ۔تاریخ میں ہم اس مباہلے کی تفسیر کبھی امام علی ، کبھی امام حسن کبھی امام حسین بن علی ، کبھی امام علی بن ، کبھی امام محمد ، کبھی امام جعفر صادق ، کبھی امام موسی کاظم، کبھی امام علی بن موسی رضا ، کبھی امام محمد تقی، کبھی امام علی نقی ، کبھی امام حسن عسکری: کی شہادت اور کبھی امام مھدی 7 کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں۔ جس سے غدیر خم میں کافروں کی اسلام کی نسبت نا امیدی کی نوید کو سنتے ہیں ۔
( الیوم ییس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوہم واخشون)[ مائدہ/1]۔
جی ہاں مباہلہ اور غدیر ہمیں اسلامی قیادت کی نشاندہی کررہے ہیں۔جسے امامت و لایت کہتے ہیں۔ اور یہی ولایت ہےجو کہاسلام کی بقا کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسلام پر آنچ آنے نہیں دیتے ہیں ۔
آج امامت اورولایت کی آخری کڑی پردہ غیب میں ہیں اور انکی نیابت حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای مدظلہ العالی کررہے ہیں جن کی اتباع سے ہی حقیقی اسلام کی ترجمانی ممکن ہے ۔ جس طرح لبنان کے روحانی سنی عالم دین شیخ احمد الزین نے تقریب مذاہب اسلامی کی خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ:” شریعت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ولی فقیہ اور رهبر کے حامی اور تابع ہوں اسلئے ہماری صلاح اسی میں ہے کہ ہم امام خامنہ ای کے نسبت اپنےایمان اور محبت کا اظہار کریں” ایسے جذبے کا اظہار وقت کی ضرورت ہے تاکہ دور حاضر میں حق کے لبادے میں جھوٹوں کا پردہ فاش ہوسکے اور اسلام میں فوج ، فوج داخل ہونے کا سلسلہ وسیع تر ہوجائے اور مباہلہ کے جانشین بقیۃ اللہ اعظم امام مہدی عجل اللہ تعالی فرج الشریف کو خداوند اذن فرج عنایت کرکے ہر جگہ امن و امان ، صدق و صداقت اور حق و انصاف کا پرچم بلند ہو جائے ۔