امام خمینی (رح)

انجام امور پر خدا کا دائمی ارادہ

ایک سفر پا جاتے تو دیکھتے کہ کام کی یہ نئی ترتیب اور پروگرام جو اچانک سامنے آتا ہے

انجام امور پر خدا کا دائمی ارادہ

 

یہ خیال کسی کے ذہن میں  نہیں  آنا چاہیے کہ یہ انقلاب کسی فرد یا شخص سے مربوط ہے۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کروں  کہ اگر میں نے انقلاب سے متعلق تمام مسائل میں دخالت کی ہے تو اس لیے کہ میں معاشرے میں موجود افراد میں  سے ایک فرد ہوں  ورنہ جو کچھ ہے وہ خدا کی طرف سے ہے۔

یہ خداوند عالم  ہی ہے کہ جس نے اس قوم کو ایک حالت سے نکال کر دوسری حالت میں  پہنچا دیا ہے، وہ مقلّب القلوب ہے، وہی ہے کہ تمام کام اور تمام امور اسی کے ہاتھ میں  ہیں  اور ہم کچھ بھی نہیں ہیں ۔ یہ اسی کی عنایت ہے کہ اس قوم کو کہ شکست ونابودی کے تمام احتمالات واندیشے اس کے سر پر منڈلا رہے تھے، اس طرح تبدیل کردیا کہ وہ تمام مشکلات و خطرات کے باوجود کامیاب ہوگئی اور یہ کامیابی بھی خدا ہی کی طرف سے اسے نصیب ہوئی ہے۔ انقلاب سے مربوط مسائل میں  جب تک میرا ان سے سروکار تھا، میں نے بارہا یہ تجربہ کیا ہے کہ اکثر اوقات ہم ایک کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن خود بخود ایک اور ہی کام کی طرف متوجہ ہوجاتے اور بعد میں  دیکھتے کہ یہ دوسرا کام ہی صحیح ہے کہ جس کی طرف بعد میں متوجہ ہوئے ہیں  اور جسے انجام دینے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں  تھا۔ یہ صرف خدا ہی تھا کہ جو ہمیں  دوسرے کام کی طرف متوجہ کرتا تھا۔

ایک سفر پا جاتے تو دیکھتے کہ کام کی یہ نئی ترتیب اور پروگرام جو اچانک سامنے آتا ہے، اسی میں  ہماری صلاح وبہتری ہے نہ وہ کہ جس کے بارے میں  ہم نے منصوبہ بندی کی تھی۔ ہر امر میں ، میں  نے تجربہ کی نگاہوں  سے دیکھا ہے کہ جو منصوبہ بندی ہم کرتے تھے وہ ہمارے کسی کام نہیں  آتی تھی۔ وہ ذات کہ جس کے ہاتھ میں  ہمارے افکار وخیالات ہیں  وہ خدا ہے، تمام امور کی زمام کار اسی کے ہاتھ میں  ہے اور ہمیں  اس بات کا یقین کرنا چاہیے۔

ہماری قوم کو اس مطلب کا یقین کرنا چاہیے کہ اگر ایک آن و لمحہ کیلئے خدا کی توجہ اور عنایتیں  اس عالم سے ہٹ جائیں  تو پورا عالم معدوم ہوجائے گا۔ اگر عالم موجود ہے تو خدا کے ارادے سے ہے، اگر ایک لمحہ کیلئے بھی اس کی عنایت ہٹ جائے تو تمام ملک و ملکوت معدوم ہوجائے گا۔ ہمیشہ خدا ہی کا ارادہ ہے کہ جس نے حفاظت کی ہے فرق یہ ہے کہ ہم اس حقیقت سے جاہل ہیں  اور اس مطلب کو نہیں  جانتے ہیں ۔

صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۴۷۰

ای میل کریں