اسلام، بشریت کا معمار
اسلام ایسا نظام حکومت نہیں کہ جو ایک ملک پر حکومت کرے، مثلاً ایران یا عراق یا فلاں ملک پر، بلکہ اسلامی نظام حکومت پورے عالم پر نظر رکھتا ہے۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمام بشریت کو درجہ کمال تک پہنچائے۔ اسلام کی کسی قوم وملت سے کوئی قرابتداری نہیں ہے، مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، اسلام ایک جامع دین اور خدائی نظام ہے کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ، سب کا خدا ومالک ہے۔ وہ نہ صرف مشرق میں بسنے والے مسلمانوں کا خدا ہے اور نہ ہی مغرب میں رہنے والے عیسائیوں اور یہودیوں کا، وہ سب انسانوں کا خدا اور سب کا رازق وخالق ہے۔ اسلام بھی ایک ایسا ہی دین ہے جو تمام بنی نوع انسان سے سروکار رکھتا ہے۔ اسلام اس لیے آیا ہے کہ وہ تمام انسانیت کی ایک عادلانہ نظام کے تحت پرورش کرے اور انہیں ایک ایسی عادلانہ صورت عطا کرے کہ ایک انسان دوسرے انسان پر سوئی کی نوک کے برابر بھی ظلم نہ کرے۔ کوئی بھی انسان اپنے اہل وعیال پر ذرہ برابر ظلم وستم نہ کرے، کوئی بیوی اپنے شوہر کے حقوق سے رائی کے دانے کی مقدار کے برابر بھی تجاوز نہ کرے یہاں تک کہ دو بھائی بھی آپس میں جھگڑا نہ کریں اور یہ لوگ اپنے رفقا ۔
واحباب سے بھی ظلم وتعدی کا سلوک نہ کریں ۔ اسلام چاہتا ہے کہ ایک مکمل اور عادل انسان تربیت کرے کہ جو تمام جہات سے انسان ہو، جس کی عقل بھی انسانی ہو اور نفس بھی، جس کا ظاہر بھی انسانی ظاہر ہو اور اس کا باطن بھی انسانی ادب وآداب سے آراستہ ہو۔ ہاں ! اسلام ایک ایسے ہی انسان کی پرورش چاہتا ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۴۵۰)
اسلام میں تمام چیزوں کو بیان کیا گیا ہے اور قرآن بھی انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور مسائل پر گفتگو کرتا ہے۔ قرآن ’’انسان کامل‘‘ بنانے والی کتاب ہے، یعنی ایک ایسی کتاب جو انسان کی تعمیر کرتی ہے۔ قرآن میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں احکام موجود ہیں ۔ قرآن میں سیاست ہے، فقہ ہے، فلسفہ ہے، غرض یہ کہ تمام چیزیں ہیں ۔ انسان کو اپنی زندگی گزارنے کیلئے ان تمام چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اور ان ضروریات کو قرآن ہی پورا کرسکتا ہے۔ انسان ایک ایسا اعجوبہ ہے جس کی ذات میں پورا ایک عالم پنہان ہے۔ قرآن بھی ایک حیرت انگیز کتاب ہے کہ جو انسان کے تمام طبقات کی تربیت کرتی ہے۔ کبھی وہ اسے فقیہ وعالم بناتی ہے، کبھی دانشور بناتی ہے، کبھی فلسفی کی شکل میں تربیت کرتی ہے تو کبھی شمشیر زن اور کبھی جنگجو بناتی ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۶، ص ۳۲۷)