مفہوم انتظار اور فلسفہ غیبت امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں
امام مہدی (عج) کی ولادت باسعادت اسلام کی عظیم الشان عیدوں میں سے ایک عید ہے اور شیعوں کے نزدیک اس عید کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھ،ق میں ہوئی۔امام زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سلسلہ عصمت محمدیہ کی چودھویں اورسلسلہ امامت کی بارہویں کڑی ہیں آپ کے والد ماجد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس خاتون تھیں۔ بانی انقلاب حضرت امام خمینی رحمہ اللہ نے حضرت امام مہدی (عج) کی ولادت با سعادت کے بارے میں دو خصوصیت ذکر کی ہیں: پہلی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت مہدی (عج) کی ولادت با سعادت ایک اعتبار سے تمام عیدوں سے برتر ہے کیونکہ جو پیغام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لائے تھے اسے نشر و اشاعت کرنے کی آپؐ کو توفیق نصیب نہیں ہوئی اور خداوندمتعال نے اپنے محبوب کو جلد اپنے پاس بلا لیا لیکن امام مہدی (عج) صحیح معنی میں اس کی نشر و شاعت کریں گے اور وہ پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پندرہ شعبان امام مہدی علیہ السلام کی ولادت با سعادت اسلامی عیدوں میں سب سے بڑی عید ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی عید تمام اسلامی عیدوں کے برخلاف پوری انسانیت کی عید ہے۔ یعنی جب امام زمانہ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے لہذا اس اعتبار سے یہ عید تمام انسانوں کی عید ہے اور پوری انسانیت ان کی ہدایت سے بہرہ مند ہوگی۔
امام زمانہ (عج) کی دو غیبتیں ہیں ایک کا نام غیبت صغریٰ ہے اور دوسری غیبت کا نام غیبت کبریٰ ہے، غیبت صغریٰ کا زمانہ ۷۰ سے ۷۴ سال کا تھا اور اس کے بعد غیبت کبریٰ کا آغاز ہوتا ہے اور کب تک یہ غیبت رہی گی اس کا علم ہمارے پاس نہیں ہے اور خدا جب چاہے گا تو امام زمانہ علیہ السلام کو ظاہر کرے گا۔ امام زمانہ کی غیبت کا راز کیا ہے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن امام خمینی (رہ) نے امام علیہ السلام کی غیبت کو اپنی مخصوص ظرافت کے ساتھ بیان کیا ہے اس مقام پر ہم صرف اس کا نتیجہ بیان کر رہے ہیں وہ یہ کہ انبیاء کی بعثت کا ایک اہم مقصد دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنا تھا جس کے بارے میں قرآن اور روایات میں بیان کیا گیا ہے اور انبیاء کا یہ اہم مقصد ابھی تک کچھ وجوہات کی بنا پر پورا نہیں ہوا ہے جیسا کہ ہم پوری دنیا میں ظلم و ستم کا مشاہدہ کر رہے ہیں، عدل و انصاف کا نفاذ ہر ایک انسان کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ صرف وہی انسان پوری دنیا میں عدل و انصاف برپا کر سکتا ہے جو انسان خود عادل اور کامل ہو اور وہ امام زمانہ علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ امام زمانہ علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری وصی ہیں اور ان کے بعد کوئی امام معصوم نہیں ہے لہذا ان کی عمر اتنی طولانی ہونی چاہئے تا کہ وہ اس اہم مقصد کو پورا کر سکیں اگر امام زمانہ علیہ السلام بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح غیبت میں نہ رہتے اور لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرتے تو مخالفین انہیں بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح شہید کر دیتے، جیسا کہ روایات میں بھی یہ ملتا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام قتل کے خوف سے غیبت اختیار کریں گے اور خدا انہیں پردہ غیب میں لے جائے گا، لہذا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ انہیں زندہ رکھنا اور انبیاء علیہم السلام کے مقصد کو پورا کرنا ہے۔
امام خمینی (رہ) امام زمانہ علیہ السلام کے انتظار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کچھ افراد یہ سوچتے ہیں کہ امام زمانہ علیہ السلام کے انتظار کا مطلب یہ ہے کہ صرف امام علیہ السلام کے ظہور کے لئے دعا کی جائے یہ ایسے افراد ہیں جو اپنے دینی فرائض پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ امر بالمعروف بھی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ظلم و ستم کو مٹانے کے لئے کوئی کام انجام نہیں دیتے۔ کچھ افراد ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ انتظار کا مطلب یہ ہے کہ دعا کریں کہ امام علیہ السلام کا ظہور جلد ہو جائے اور امام زمانہ علیہ السلام خود آ کر مسائل کو حل کریں یہ لوگ اگرچہ اپنی انفرادی زندگی پر عمل کر رہے ہیں لیکن وہ معاشرے کے مسائل سے بے خبر ہیں، کچھ افراد ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ انتظار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کا اضافہ ہو تاکہ امام علیہ السلام کا ظہور ہو یہ افراد امربالمعروف اور نہی از منکر کے مخالف ہیں۔ ان کے علاوہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو یہ سوچتا ہے کہ امام علیہ السلام کے ظہور کے لئے زیادہ سے زیادہ گناہ انجام دئے جائیں اور دوسروں کو بھی گناہوں کی تشویق کی جائے۔ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ پہلا اور دوسرا گروہ ایسا ہے جو خود تو صحیح و سالم افراد پر مشتمل ہے لیکن اس کی سوچ غلط ہے لیکن آخری گروہ ایسا ہے جو باطل اور منحرف ہے اور اس کی سوچ بھی باطل ہے، امام (رہ) فرماتے ہیں کہ انتظار کے غلط معنی اہل سیاست نے بیان کئے ہیں تا کہ وہ اس طریقے سے مسلمانوں کو سیاست سے دور رکھیں، امام (رہ) کی نظر میں حقیقی انتظار کا مطلب یہ ہے کہ منتظر وہ ہے جو اعمال انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایسے شرائط مہیا کرے تا کہ حقیقی انتظار صادق آئے اس کے علاوہ اگر کوئی انتظار کر رہا ہے تو وہ صرف انتظار کا دعویدار ہے۔
موجودہ اسلامی دنیا کی ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے ممالک میں بٹ گئی ہے اور اس کے نتیجہ میں تفرقہ پیدا ہو رہا ہے مسلمان عالمی اسکتبار کے خلاف عظیم طاقت بننے کے بجائے ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو ایسے شرائط میں مسلمان عالمی اسکتبار کا مقابلہ کیسے کریں گے اور ایسے شرائط میں امام علیہ السلام کا ظہور کیسے ہو پائے گا؟