بعثت رسول اکرمؐ کی اہمیت امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں
بعثت تاریخ اسلام اور اسلامی اصطلاح میں اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خداوندمتعال نے رسالت پر مبعوث فرمایا، دینی اصطلاح میں خداوندمتعال کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی نبی یا رسول کے بھیجنے کو بعثت کہا جاتا ہے لیکن روز مبعث یا عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رسالت پر مبعوث ہوئے۔ حضرت محمدؐ غار حراء میں عبادت میں مشغول تھے اسی اثنا میں سورۂ علق کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا، پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ(س) اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؑ کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ بعثت کا واقعہ مسلمانوں کے درمیان خاص اہمیت کا حامل ہے شیعہ حضرات ۲۷ رجب کو عید مبعث کی مناسبت سے جشن مناتے ہیں اور اہل سنت کے مطابق بعثت کا واقعہ ماہ مبارک رمضان میں پیش آیا ہے۔
بانی انقلاب حضرت امام خمینی رحمہ اللہ بعثت کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں: بعثتِ پیغمبر بنی نوع انسان کی تاریخ میں مسلمانوں کے لئے نہایت اہم واقعہ ہے کہ جس نے انسانی کمال اور انسانی فضیلت کا راستہ روشن کیا ہے، پیغمبر خاتم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا آغاز اور قرآن مجید کے نزول کا مطلب انبیائے کرام کے تمام اہداف اور آسمانی کتابوں کی وضاحت کرنا تھا اور ان مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا اور یہ ذمہ داری خداوندمتعال نے سب سے کامل ذات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاندھوں پر رکھی لہذا بعثت یعنی توحید ناب کا پرچار، وحی الہی اور نبوت کا قیام، انفرادی اور اجتماعی عدالت کا قیام اور ہر طرح کے ظلم و ستم، امتیازی سلوک اور ظالمانہ استحصال کے خلاف جنگ۔ بعثت یعنی دنیا کے تمام حصوں میں حق کا علم بلند کرنا اور باطل کے جھنڈوں کا اکھاڑ پھینکنا۔
امام خمینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعثت کا مقصد نفوس کا تزکیہ ہے اور تزکیہ نفوس کا مطلب یہ ہے کہ خود غرضی کا خاتمہ ہو جائے، خودپسندی کا خاتمہ ہو جائے، دنیا طلبی کا خاتمہ ہو اور تمام چیزوں کی جگہ خداوندمتعال لے لے اور ہر چیز میں خدا کا جلوہ نظر آئے۔ بعثت کا مقصد یہ ہے کہ انسانی دلوں پر خدا کی حکومت ہو تا کہ انسانی معاشروں میں بھی اس کے جلوے نظر آئیں جب تک اعلیٰ طبقوں اور اعلیٰ حکام کی اصلاح نہ ہو تو کسی ملک میں اصلاح نہیں ہو سکتی۔
امام خمینی رحمہ اللہ بعثت کو محض ایک تاریخی واقعہ نہیں سمجھتے بلکہ فرماتے ہیں: مسئلہ بعثت، اس کی حقیقت اور برکتیں ایسی چیزیں نہیں جنہیں ہم اپنی معمولی سی زبانوں سے بیان کر دیں اور ہماری زبانیں انہیں ہرگز بیان نہیں کر سکتیں اس کے طول و عرض اور اس کے معنوی اور مادی پہلو اتنے زیادہ ہیں کہ ہم اسے ہرگز بیان نہیں کر سکتے۔ حضرت امام خمینی رحمہ اللہ بعثت کے واقعہ کا ایک برجستہ پہلو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بے مثال شخصیت کو قرار دیتے ہیں، خداوندمتعال کا درود و سلام ہو حضرت رسول اکرمؐ پر جو اکیلے ہی مشرکوں اور زمانے کے متکبروں کے خلاف کھڑے ہوئے اور انہوں نے مظلوموں کے مفاد کے لئے توحید کا پرچم لہرایا اور تعداد کی کمی کا خوف نہ کیا اور ایمانی طاقت کے ذریعہ انہوں نے ستمگروں اور ظالموں کا مقابلہ کیا اور نصف صدی کے اندر ہی توحید کی آواز کو دنیا تک پہنچا دیا۔
بعثت کے دن کے بارے میں حضرت امام خمینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ازل سے ابد تک پوری دنیا میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے دن سے برتر کوئی دن نہیں ہے کیونکہ اس سے بڑا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے دنیا میں بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں، انبیائے عظام کی بعثت، اولوالعزم انبیاء کی بعثت اور بہت سے عظیم واقعات، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے بڑھ کر کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے اور یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آئندہ اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوگا۔ کیونکہ عالم وجود میں خداوندمتعال کی ذات مقدس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں ہے ۲۷ رجب المرجب کا دن رسول ختمی المرتبت کی بعثت کا دن ہے اور وہ عالم امکان کی سب سے عظیم شخصیت ہیں، اور یہ واقعہ ایسے ہی دن پیش آیا ہے اور اس نے اس دن کو عظمت بخشی ہے اور ایسا دن ازل سے لے کر ابد تک تاریخ میں نہیں ہے اور نہ ہی ہوگا۔
امام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعثت کا دن وہ دن ہے جب خداوندمتعال نے ایک ایسے وجود کو حکم دیا جس سے کامل کوئی وجود نہیں ہو سکتا کہ وہ انسانوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے وہ انسان جو ابتدائی طور پر ایک ضعیف و کمزور اور ناتواں ہے لیکن اس میں ترقی کی قابلیت پائی جاتی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا کہ وہ انسانوں کو ترقی کے راستوں کو پہچنوائیں کیونکہ انسان کے طول و عرض پوری کائنات کے طول و عرض ہیں اور اسلام انسان کے تمام پہلوؤں کی تربیت کا ذمہ دار ہے۔
امام خمینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول خداؐ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ وہ ظلم کا مقابلہ کرنے کا طریقہ لوگوں کو سکھائیں، لوگوں کو بڑی اور ظالمانہ طاقتوں کا مقابلہ کرنے کا طریقہ سکھائیں، بعثت کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاق، لوگوں کے نفوس، لوگوں کی روحوں اور لوگوں کے جسموں کو ظلمتوں سے نجات دلائیں، ظلمتوں کا خاتمہ کر کے ان کی جگہ نور کا اجالا کریں، ظلمتِ جہل کو دور کر کے اس کی جگہ نور علم کو جگہ دی جائے، ظلمتِ ظلم کی جگہ نور عدالت کو جگہ دی جائے، انہوں نے ہمیں سمجھایا ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں انہیں متحد ہونا چاہئے اور تفرقہ سے دوری اختیار کرنی چاہئے۔