ام البنين ياد عاشورا کي محافظ
امام حسين عليہ السلام سے ان کي اس قدر محبت ان کي معنويت ميں کمال کي دليل ہے کہ انھوں نے تمام مصائب کو ولايت کي راہ ميں فراموش کيا اور صرف اپنے امام اور رہبر کي بات کرتي تھيں"اے وہ جس نے ميرے کڑيل جوان بيٹے کو اپنے باپ کے مانند دشمنوں پر حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ديکھا علي عليہ السلام کے بيٹے سب کے سب کچھار کے شيروں کے مانند شجاع اور بہادر ہيں ميں نے سنا کہ ميرے عباس کے سرپر آہني گرز سے وار کيا گيا، حالانکہ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے تھے، اگر ميرے بيٹے کے بدن ميں ہاتھ ہوتے تو کون اس کے پاس آکر جنگ کرنے کي جرات کرتا؟"
ام البنين کے چار بيٹوں کے کربلا ميں شہيد ہونے سے، اس صبر و شکيبائي کي مجسمہ خاتون کو چار شہيد بيٹوں کي ماں کا شرف اور افتخار ملا اس کے ساتھ ہي شہيد شوہر کي بيوي ہونے کا شرف بھي انھيں حاصل تھا انھوں نے مذکورہ جذبات کي روشني ميں کچھ اشعار کہے ہيں جن کا ترجمہ حسب ذيل ہے:
چار شہيدوں کي ماں
حضرت زينب کبري(س) عيدوں وغيرہ کے مانند دوسري مناسبتوں پر بھي احترام بجالانے کے لئے ام البنين کي خدمت ميں حاضر ہوتي تھيں
کے بلند مقام و منزلت کا پتہ چلتا ہے(س) کي خدمت ميں حاضر ہوکر ان کے بيٹوں کي شہادت پرکلمات تسليت و تعزيت کہنے سے اہل بيت (ع) کي نظر ميں ام البنين (س)رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي نواسي، امام حسين عليہ السلام کي شريک تحريک اور قيام حسيني (ع) کے دھڑکتے دل، يعني زينب کبري سلام اللہ عليہا کا، ام البنين
حضرت زينب کبري سلام اللہ عليہا مدينہ ميں پہنچنے کے بعد، حضرت ام البنين کي خدمت ميں حاضر ہوئيں اور ان کے بيٹوں کي شہادت کے بارے ميں تسليت و تعزيت اداکي
جب بشير نے امام حسين (عليہ السلام) کي شہادت کي خبر دي تو ام البنين نے ايک آہبھري اور فرمايا:" قد قطعت نياط قلبي"،" اے بشير! تونے ميرے دل کي رگ کو پارہ پارہ کيا" اور اس کے بعد نالہ و زاري کي
اے بشير! مجھے ابي عبدا للہ الحسين کي خبر بتادو ميرے بيٹے اور جو کچھ اس نيلے آسمان کے نيچے ہے، ابا عبداللہ الحسين (ع) پر قربان ہو"
يا بشير اخبرني عن ابي عبداللہ الحسين، اولادي و تحت الخضري کلھم فداء لابي عبداللہ الحسين"
مورخين نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشير نے مدينہ ميں ام البنين(س) سے ملاقات کي تاکہ ان کے بيٹوں کي شہادت کي خبر انھيں سنائيں وہ امام سجاد کي طرف سے بھيجے گئے تھے، ام البنين نے بشير کو ديکھنے کے بعد فرمايا: اے بشير ! امام حسين ( عليہ السلام) کے بارے ميں کيا خبر لائے ہو؟ بشير نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے ام البنين نے فرمايا:" مجھے حسين ( عليہ السلام) کي خبر بتادو" بشير نے ان کے باقي بيٹوں کي شہادت کي خبر کا اعلان کيا ليکن ام البنين مسلسل امام حسين (ع) کے بارے ميں پوچھتي رہيں اور صبر و شکيبائي سے بشيرسے طرف مخاطب ہوکر فرمايا: جب شمر نے اپني بات ختم کي، حضرت عباس(ع) غيض و غضب ميں اس کي طرف رخ کرکے بولے:" خدا تمھيں اور اس آمان نامہ کو تيرے ہاتھ ميں دينے والے پر لعنت کرے، تم نے مجھے کيا سمجھا ہے؟ ميرے بارے ميں کيا خيال کيا ہے؟ کيا تم نے يہ سمجھا ہے کہ ميں ايک ايسا انسان ہوں جو اپني جان بچانے کے لئے، اپنے امام اور بھائي امام حسين (ع) کو تنہا چھوڑ کر تيرے پيچھے آوں گا؟ جس دامن ميں ہم نے پرورش پائي ہے اور جس پستان سے ہم نے دودھ پيا ہے، اس نے ہميں اس طرح تربيت نہيں دي ہے کہ ہم اپنے امام اور بھائي کے ساتھ بے وفائي کريں"
شب عاشور حضرت عباس، ابا عبداللہ الحسين(ع) کے پاس بيٹھے ہيں، اسي دوران دشمنوں کا ايک سردار آتا ہے اور فرياد بلند کرتا ہے:" عباس بن علي(ع) اور ان کے بھائيوں سے کہہ دو کہ ہمارے پاس آجائيں، عباس اس آواز کو سنتے ہين ليکن سننے کے باوجود اَن سُني کرتے ہيں، اس کي طرف کوئي اعتنا نہيں کرتے ہيں امام حسين (ع) کے سامنے اس طرح با ادب بيٹھے ہيں کہ امام نے ان سے مخاطب ہوکر فرمايا: " اس کا جواب دے دو، اگر چہ وہ فاسق ہے" حضرت عباس آگے بڑھ کر ديکھتے ہيں کہ شمر ذي الجوشن ہے شمر، حضرت ابوالفضل العباس کے ساتھ ان کي ماں کي طرف سے ايک دور دراز رشتہ کے پيش نظر کہ دونوں ايک ہي قبيلہ سے تعلق رکھتے تھے، کوفہ سے آتے وقت حضرت ابوالفضل العباس اور ان کے بھائيوں کے لئے اپنے خيال خام ميں امان نامہ لے کر آيا تھا اور اسے اپنے خيال ميں ان کے حق ميں ايک خدمت جانتا تھا۔
شب عاشور
فاطمہ کلابيہ نے، حضرت علي عليہ السلام کے ساتھ ايک مختصر مدت کي مشترکہ زندگي کے بعد اميرالمؤمنين کي خدمت ميں يہ تجويز پيش کي کہ انھيں " فاطمہ" کے بجائے " ام البنين" خطاب کريں تاکہ" فاطمہ" (س)اور " کنيز فاطمہ" کے درميان فرق مشخص ہوجائے اور يہ فرق محفوظ رہے