علماء کو سیاست میں مداخلت سے روکنے والے شیطان ہیں
چھوٹے اور بڑے شیطان جو ہر جگہ تمام طاقتوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور قوموں کو لوٹنا چاہتے ہیں کئی سالوں سے علماء کے خلاف عجیب و غریب منصوبے بنا رہے ہیں ان کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ یہ تھا کہ علماء سیاست میں حصہ نہ لیں ان کا یہ کہنا تھا کہ علماء کا کام صرف لوگوں کو نماز اور روزے کے بارے میں بتانا ہے اور ان کی جگہ مسجد ہے وہ گھر سے نکلیں اور مسجد میں جائیں اور مسجد سے نکلیں گھر چلیں جائیں یہی علماء کا کام ہے اور اس منصوبےکی تشہیر اس طرح کی گئی تھی کہ ہر ایک انسان کو یقین ہو گیا تھا کہ سیاسی امور میں مداخلت کرنا ایک عیب ہے اگر کسی عالم کے لئے یہ کہا جاتا کہ وہ سیاسی ہے تو یہ بات اس کے لیئے گالی کے برابر ہوتی تھی اور علماء میں سے بھی کچھ افراد نے اس بات پر یقین کر لیا تھا کہ علماء کا کام صرف نماز اور روزے کے بارے لوگوں کی رہنمائی کرنی ہے اور سیاسی امور میں مداخلت کرنا علماء کا کام نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی(رح) نے تہران جماران امام بارگاہ میں ملک کے ائمہ جمعہ سے ایک ملاقات کے دوران تمام ائمہ جمعہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ چھوٹے اور بڑے شیطان جو ہر جگہ تمام طاقتوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور قوموں کو لوٹنا چاہتے ہیں کئی سالوں سے علماء کے خلاف عجیب و غریب منصوبے بنا رہے ہیں ان کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ یہ تھا کہ علماء سیاست میں حصہ نہ لیں ان کا یہ کہنا تھا کہ علماء کا کام صرف لوگوں کو نماز اور روزے کے بارے میں بتانا ہے اور ان کی جگہ مسجد ہے وہ گھر سے نکلیں اور مسجد میں جائیں اور مسجد سے نکلیں گھر چلیں جائیں یہی علماء کا کام ہے اور اس منصوبےکی تشہیر اس طرح کی گئی تھی کہ ہر ایک انسان کو یقین ہو گیا تھا کہ سیاسی امور میں مداخلت کرنا ایک عیب ہے اگر کسی عالم کے لئے یہ کہا جاتا کہ وہ سیاسی ہے تو یہ بات اس کے لیئے گالی کے برابر ہوتی تھی اور علماء میں سے بھی کچھ افراد نے اس بات پر یقین کر لیا تھا کہ علماء کا کام صرف نماز اور روزے کے بارے لوگوں کی رہنمائی کرنی ہے اور سیاسی امور میں مداخلت کرنا علماء کا کام نہیں ہے۔
رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کہ سیاست میں مداخلت کرنا علما کرام، نبیوں اور خدا کے اولیاء کے لئے صحیح ہے لیکن علماء کرام ،انبیاء اور اولیاء علیھم السلام کی پالیسیوں اور عصر حاضر کی سیاسی پالیسیوں میں فرق ہے انبیاء اور اولیاء علیھم السلام کی پالیسیاں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیئے تھیں اور یہی سیاست آج علماء کی بھی ہے لیکین موجودہ سیاست اور سیاسی صرف اپنے ذاتی مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں ان کا ہدف لوگوں کی اصلاح کرنا نہیں ہے۔