حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا مختصر تعارف
حضرت زینب سلام اللہ علیہا امام علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فرزند ارجمند ہیں جو سنہ 5 یا 6 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔
وجہ تسمیہ:
آپ کا نام زینب ہے جو لغت میں "نیک منظر اور خوشبو دار درخت" کے معنی میں آیا ہے اور اس کے دوسرے معنی "زین أَب" یعنی "باپ کی زینت" کے ہیں۔
متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا نام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رکھا نیز کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹی کو وہی نام دیا جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے۔
جزائری نے خصائص الزینبیہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علی و آلہ وسلم نے آپکا بوسہ لیا اور فرمایا: "میری امت کے حاضرین غائبین کو میری اس بیٹی کی کرامت سے آگاہ کریں کہ وہ اپنی جدہ خدیجہ کی مانند ہے۔"
القاب
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے دسیوں القاب ہیں منجملہ بعض مشہور القاب یہ ہیں:
عقیلۂ بنی ہاشم، عالمۃ غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، کاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریکۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریکۃ الحسین۔
والد گرامی سے عشق و محبت
حضرت زینب سلام اللہ علیھا اپنی شخصیت و اہلیت کی بنیاد پر اپنے پدرِ بزگوار کی ایک بے مثال مونس و معاون ثابت ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؑ کو اپنی اس بیٹی کی دوری گوارا نہیں تھی، چنانچہ خاتوںِ کربلا کا رشتہء ازدواج بھی پدر و دختر کے مابین جدائی کا سبب نہیں بنا۔
عبادات
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تہجد کو ترک نہیں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔
شریکۃ الحسین علیہ السلام
حضرت زینب سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی امام حسین علیہ السلام سے خاص محبت رکھتی تھیں اور آخری دم تک آپ نے اس محبت میں کمی آنے نہیں دی۔ آپ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا میں موجود تھیں اور 10 محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو جنگ کے خاتمے کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے ایک گروہ کے ساتھ لشکر یزید کے ہاتھوں اسیر ہوئیں اور کوفہ اور شام لے جائی گئیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اسیری کے دوران، دیگر اسیروں کی حفاظت و حمایت کے ساتھ ساتھ، اپنے بے مثال خطبوں کے توسط سے بےخبر عوام کو حقائق سے آگاہ کیا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے تحریک عاشورا کی بقاء کے اسباب فراہم کئے۔ مہد سے لے کر لحد تک آپ سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی ایثار و قربانی، جہدِ مسلسل، صبر و رضا اور جہاد فی سبیل اللہ سے عبارت ہے۔
ام المصائب
آپ نے زندگی میں بہت زیادہ مصائب دیکھے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات، اپنی والدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کی سختیاں، شہادت، امام حسن مجتبی علیہ السلام، واقعۂ کربلا اور کوفہ و شام کی اسیری وغیرہ، ان وجوہات کی بنا پر آپ کو ام المصائب کے لقب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔
تاریخی روایات کے مطابق سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سنہ 63 ہجری کو دنیا سے رخصت ہوئیں اور دمشق میں دفن ہوئیں۔