اسرائیل نے فخری زادے کے کے قتل کا اعتراف کر لیا
صہیونی ریاست کے ایک ریٹائرڈ جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کے جوہری اور دفاعی سائنسداں ایک پیچیدہ کاروائی کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے گئے۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اسرائیلی فوجی انٹلیجنس سروس (آمان) کے سابق سربراہ اور اسرائیل انسٹی ٹیوٹ برائے داخلی سیکیورٹی اسٹڈیز (آئی این ایس ایس) کے موجودہ سربراہ "عاموس یادلن" نے کہا ہے کہ ایران سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے شائد موجودہ امریکی انتظامیہ کے خاتمے تک انتظار کرے۔
اخبار " یروشلم پوسٹ " نے لکھا ہے کہ "یادلین" نے ہفتے کی شام ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی: "جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے فورا بعد امریکہ نے ذمہداری قبول کی تو ایران نے دسیوں میزائل عراق میں امریکی اڈے پر داغ دئیے، لیکن ابھی کوئی بھی فخری زادے کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا ہے لہذا یہ امکان پایا جا رہا ہے کہ ایران ٹرمپ انتظامیہ کے خاتمے تک صبر کرے اس لیے کہ وہ نہیں چاہے گا کہ ٹرمپ جاتے جاتے ایران کے لیے کوئی بڑی مشکل کھڑی کر دے"۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ایران کے خیال میں، صہیونی حکومت شہید فخری زادے کے قتل کی ذمہ دار ہے ، کہا: "تل ابیب نے اس کارروائی کی ذمہداری قبول نہ کر کے تہران کو موقع دے دیا ہے کہ وہ ردعمل کا اظہار کرنے کے لیے عجلت سے کام نہ لے"۔
جوہری پروگرام کو مستحکم کرنے کی شکل میں رد عمل
یروشلم پوسٹ کے مطابق "یادلن" نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ شاید ایران کا سخت ردعمل اسرائیل پر میزائل حملہ ہوگا ، مزید کہا: "البتہ، ایران صرف اپنے جوہری پروگرام میں تیزی لا کر رد عمل ظاہر کرسکتا ہے ، جیسا کہ محسوس ہو رہا ہے، اور مئی 2019 کے بعد سے ایران ایسا کر رہا ہے. وہ موجودہ سطح سے کہیں زیادہ [یورینیم] کی افزودگی کرسکتے ہیں اور زیادہ جدید سینٹرفیوج انسٹال کرسکتے ہیں۔ "یہ ایک اسٹریٹجک اقدام یا رد عمل ہوگا۔"
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی سفارت خانوں یا کلیدی شخصیات پر حملہ کرنے کے آپشن کو سنہ 2010-2011 میں کئے گئے متعدد ایرانی جوہری سائنسدانوں کے قتل پر ہونے والے رد عمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لبنان ، شام ، عراق ، یمن یا کسی اور جگہ پر ایران کے حامی گروہوں کے ذریعے حملہ کروا کر بھی ایران اپنا انتقام لے سکتا ہے۔
صہیونی حکام اپنا منہ بند رکھیں!
اس رپورٹ کے مطابق ، صہیونی حکومت کے اس سابق سیکیورٹی اہلکار نے شہید فخری زادے کے قتل کے چند گھنٹوں بعد "بنیامن نیتن یاہو" کے ذوق دار تبصرے کا ذکر کرتے ہوئے ، حکومت کے موجودہ عہدیداروں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا منہ بند کردیں اور کچھ ظاہر نہ کریں کیونکہ اب تک انہوں نے حد سے زیادہ بول دیا ہے۔
انھوں نے اس دعوے کا اعادہ کرتے ہوئے کہ ایران میں ایک خفیہ جوہری پروگرام موجود ہے اور کوئی بھی ایران کے خفیہ جوہری پروگرام سے واقف نہیں ہے، کہا کہ "بغیر شک کے فخری زادہ جوہری سائنسداں اور ایران کے ایٹمی پلانٹ کو منظم کرنے والا شخص تھا"۔
اس ریٹائرڈ صہیونی جنرل نے شہید فخری زادہ کا موازنہ شہید حج قاسم سلیمانی سے کرتے ہوئے کہا ، "اس حقیقت کے باوجود کہ ایرانیوں کو اس کا کوئی متبادل مل جائے گا ، لیکن اس کی صلاحیتوں اور مہارتوں کا بدل نہیں ملے گا۔"
"ایرانی جوہری سائنسدان کے قتل کے وقت کے بارے میں ، یادلن نے کہا ،" وہ اس وقت متعدد اور پیچیدہ کاروائی کے نتیجے میں مارا گیا ہے چونکہ اس طرح کی منظم کاروائی کرنے کے لیے طویل مدت اور وسیع منصوبے کی ضرورت تھی" ۔
انہوں نے اس قتل میں اسرائیل کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اگر دوسرے فریق جیسے امریکہ، سعودی عرب یا دیگر ایران مخالف اس کاروائی میں شامل ہوتے تو زیادہ وقت لگتا اور کچھ خصوصی شرائط کی ضرورت ہوتی، تاکہ سب فریق گرین سیگنل دکھاتے"۔
خیال رہے کہ ایک مغربی انٹیلیجنس عہدیدار نے ہفتے کی شام یہ بات واضح کردی تھی کہ صہیونی حکومت نے ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لئے فخری زادہ کا قتل ایک طویل مدت منصوبہ کے بعد کیا۔