زینبی کردار
جناب زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت غم و اندوہ اور تیمار داری میں ہی خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مسلمان خاتون کا مکمل نمونہ تھیں ۔ یعنی وہ آئیڈیل جسے اسلام نے خواتین کی تربیت کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی شخصیت ، ایک ہمہ گیر شخصیت ہے ۔ عالم و دانا ، صاحب معرفت اور ایک نمایاں انسان کہ جب بھی کوئی ان کے سامنےکھڑا ہوتا ہے ان کی علمی و معنوی عظمت اور معرفت کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔
ایک مسلم خاتون جس پہلو کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے یہی ہے یعنی اسلام کو اپنے وجود میں بسانا ۔ایمان کی برکت اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے سے ایک مسلمان عورت کا دل اس قدر گشادہ ہو جاتا ہے اور وہ اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے حادثات اس کے آگےگھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔
زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی زندگی کا یہ پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ عاشورا جیسا عظیم واقعہ زینب کو جھکا نہیں سکا ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم و ستمگر افراد کی ظاہری حشمت اور جاہ و جلال زینب کو نہ للکا رسکے ۔ زینب نےہمیشہ اور ہر جگہ اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا ۔ ان کا وطن مدینہ ہو یا سخت امتحان و آزمائش کی آماجگاہ کربلا یا پھر یزید و ابن زیاد کا دربار ہر جگہ زینب ثابت قدم اور سر بلند رہی اور باقی سب ان کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے مغرور اور ستمگر افراد اس دست بستہ اسیر کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے ۔
زینب کبریٰ کی شخصیت میں ایک طرف صنف نسواں کی عطوفت و مہربانی ہے او ردوسری طرف ایک مومن انسان کے دل میں پائی جانے والی متانت ، عظمت اور سکون و پایداری ، ایک مجاہد راہ خدا کی صاف اور گویا زبان ۔ ایک پاک و خالص معرفت ،جو ان کی زبان و دل سے نکلتی اور سننے والوں کو مبہوت کردیتی ہے ۔
ان کی نسوانی عظمت ، جھوٹے بزرگوں کو حقیر و پست بنا دیتی ہے اسے کہتے ہیں نسوانی عظمت ! حماسہ اور عطوفت سے مرکب وہ عظمت جو کسی فرد میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔وہ ہستی جو اپنی متین شخصیت اور پایدار روح کے ذریعہ تمام ناگوار حوادث کو سر کر جائے اور بہڑکتے ہوئے شعلوں کو شجاعت و بہادری سے اپنے پیروں تلے روند ڈالے ۔ لوگوں کو درس دے اور انہیں بیدار کرے ۔ ساتھ ہی اپنے زمانے کے امام کو ایک مہربان ماں کی طرح تسلی و تشفی دے ۔ اور ان نازک حالات اور طوفان ھوادث میں یتیم بچوں کی حفاظت اور ان کی تسلی و تسکین کے لئے ایک محکم دیوار بن جائے ۔اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا ایک ہمہ گیر شخصیت تھیں ۔ اسلام ایک عورت کو اسی طرف لے جانا چاہتا ہے ۔
ہنر مندانہ گفتگو
میری نظر میں جناب زینب کو ادبیات و ہنر کے ذریعہ عظیم واقعات وحوادث کی حفاظت کرنے اور انہیں بچانے کا بانی کہا جاسکتا ہے ۔اگر جناب زینب نہ ہوتیں اور ان کے بعد دوسرے اہل حرم جیسے امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو تاریخ میں واقعہ کربلا کا نام نہ ہوتا ۔
سنت الٰہی یہی ہے کہ اس طرح کے واقعات تاریخ میں باقی رہیں ۔ البتہ سنت الٰہی کایہ ایک شیوہ اور طریقہ ہے ۔ تاریخ میں ان واقعات کی بقا کا طریقہ یہ ہے کہ صاحبان اسرار ، اہل درد اور وہ افراد جو ان حقائق سے مطلع ہیں وہ دوسرے کو ان سے آگاہ کریں ۔ اس لئے اپنی یاد داشت کو بیان کرنا ، انہیں مدون کرنا اور حقائق کو دوسرے تک منتقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے ۔ ہنرمندانہ بیان اور گفتگو اس کی ایک بنیادی شرط ہے جیسے کوفہ و شام میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے خطبات حسن بیان اور جذابیت کے اعتبار سے ایک ہنر مندانہ گفتگو تھی ۔ ایک ایسی گفتگو کہ کوئی بھی ایسے نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ جب ایک مخالف اس گفتگو کو سنتا ہے تووہ ایک تیز تلوار کی اس پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہنر کا اثر اپنے مخاطب سے وابستہ نہیں ہوتا ۔ وہ چاہے یا نہ چاہے ہنر اپنا کام کر دکھاتا ہے شام میں جناب زینب اور امام سجاد نے اپنے فصیح و بلیغ اور ہنر مندانہ گفتگو کے ذریعہ یہی کام کیا