رسول خداؐ کی ولادت با سعادت امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں
تمام شیعہ علماء کے نزدیک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت ۱۷ ربیع الاول کو مکہ معظّمہ میں جمعہ کے دن طلوع فجر کے وقت ہوئی۔ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) کی ذات اقدس، خداوند عالم کا مکمل آئینۂ جمال و کمال ہے۔ حضرت رسول خداؐ کے حقیقی پیروکار حضرت امام خمینی (رہ) کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو مکتب انبیاء علیہم السلام کے بارے میں صحیح معرفت رکھتے تھے۔ امام خمینی (رہ) نے ایسے زمانے میں امت مسلمہ کو بیدار کیا جب امت مسلمہ دین کو فراموش کر چکی تھی اور تقریباً دنیا کی سبھی مادی اور معنوی طاقتوں کا یہ تصور تھا کہ دین اسلام یقیناً اب ختم ہونے جا رہا ہے اور وہ اس کی جگہ کسی اور چیز کی تبلیغ اور نشر و شاعت کی فکر میں تھے۔ لیکن امام خمینی (رہ) امت مسلمہ کو بیدار کرنے اور ایسی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے جو دینی اصولوں پر مبنی تھی اور جس کا قانون، قانون الہی تھا۔ اس لحاظ سے امام خمینی (رہ) نے عصر حاضر میں صحیح معنوں میں دینی تفکرات کو زندہ کیا اور ان کے فکر و عمل نے نہ صرف مسلمانوں اور دین اسلام کو ایک نئی زندگی بخشی بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب اور ان کے چاہنے والوں نے بھی ان کی افکار کے سائے میں ایک نئی زندگی پائی اور انقلاب اسلامی ایران کو اپنا نمونہ عمل بناتے ہوئے دنیا کے مختلف خطوں میں تمام مستضعفوں اور محروموں نے اپنے آپ کو پنچنوایا اور اسی طرح مادی دنیا کی فکر و سوچ تاریخ کے کوڑے دان میں چلی گئی۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: ولادتیں مختلف ہیں ایک ولادت وہ ہوتی ہے جو تمام خیرات و برکات اور ظلم و ظالم کو نیست و نابود، نیز آتشکدہ فارس کے بجھ جانے کا سبب قرار پاتی ہے۔ جیسا کہ رسول اکرمؐ کی ولادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آتشکدۂ فارس بجھ گیا۔ یہ تو تاریخی باتیں ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے اس دور میں دو طاقتیں تھیں ایک ظالمانہ حکومت کی طاقت اور دوسری روحانی طاقت جو آتش پرستی میں مصروف تھی۔ اور حضور اکرمؐ کے آنے کے ساتھ ان دونوں طاقتوں کو شکست ہوئی آپؐ کی ولادت ان دونوں طاقتوں کی شکست کا ذریعہ بنی۔ کسری کے مینارے گر گئے۔ رسول اکرمؐ کی ولادت ان دو بنیادوں یعنی ظلم کی بنیادوں کے خاتمے اور آتش پرستی کی خاتمے کا آغاز قرار پائی۔ آپؐ کے آنے سے یہ دونوں طاقتیں شکست سے دوچار ہوئیں۔ اور اس کے بجائے پوری دنیا میں توحید کا پرچم بلند ہوا اور ان شاء اللہ ہوتا رہے گا۔
بانی انقلاب فرماتے ہیں: میں تمام مظلوموں اور محروموں اور دنیا کی تمام اقوام خصوصا عام مسلمانوں کو ولادت با سعادت خاتم النبیین کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، ایسی ولادت جو سعادتوں سے لبریز ہے۔ حضرت خاتم النبیین و افضل المرسلین کی بابرکت ہجرت اسلامی اور الہی تحریک کا منبع قرار پائی نیز انسانیت کی ثقافت کے نشو و نما اور عدل و انصاف کے نفاذ اور ظلم و بربریت کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکنے اور تمام شیطانی عادتوں سے نکل کر مطلق روشنی اور کمال کا سبب بھی قرار پائی۔ ہمارا اسلامی، ایرانی اور الہی انقلاب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظیم تحریک کا ایک جلوہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت اور ہجرت ایسے زمانے میں واقع ہوئی جب پوری دنیا میں جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور طاقتور افراد آدم خور حیوانوں کی طرح مظلوموں کا جا جینا حرام کر چکے تھے۔
امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کا دن ایک مقدس دن اور با برکت عید ہے کہ جس دن بنی نوع انسان کی سب سے عظیم شخصیت، بشریت کی اصلاح اور دیگر تبدیلیوں کے لئے آئی، نیز ان کے بیٹے حضرت امام صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت، جنہوں نے مذہب کی ترویج کی اور دین اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے استقامت اور توحید کا پرچم بلند کیا اور اسی مرکز میں جہاں توحید اور خدا کی حکمرانی کے بجائے بتوں کی پوچا کی جاتی تھی اور ایسے دور میں جہاں خداوندمتعال کی حمد کے بجائے آگ کی پوجا کی جاتی تھی، توحید کی نشر و اشاعت کی۔ یہ ایک ایسا بابرکت دن ہے نیز یہ وعدہ کا دن ہے جس نے انسانیت کو استقامت اور سیدھے راستہ کی جانب رہنمائی کی خوشخبری دی ہے۔
امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ یہ عظیم عید کہ جس کے بارے میں مجھے کہنا چاہئے کہ یہ ایک نہیں بلکہ دو عیدیں ہیں، ایک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی عید اور دوسری حضرت صادق علیہ السلام کی ولادت کی عید۔ خداوندمتعال اس عید کو تمام مسلمانوں پر بابرکت قرار دے اور خصوصاً ایرانی قوم پر۔ حضرت رسول خداؐ کی ولادت پر کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے، روایات کے مطابق ایسے نایاب واقعات جو ہماری اور اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں ان واقعات کی جانچ ہونی چاہئے کہ وہ کون سے واقعات تھے منجملہ آتشکدۂ فارس کا بجھ جانا اور بتوں کا زمین پر گرنا وغیرہ۔
قصر کے چودہ مینارے یعنی قصر ظلم کے چودہ میناروں کے گرنے سے آپ کو کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ کام چودہویں صدی میں انجام پائے گا یا اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا ہے چودہ صدیاں بعد یہ کام انجام پائے گا؟ شائد یہ مناسب ہو اور اس چیز کا احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ شہنشاہی ظلم کی بنیادیں چودہ صدیوں کے بعد اکھڑ جائیں گی اور الحمد للہ خدا کے فضل سے اس کی بنیادیں اکھڑ گئیں، تمام بت بھی گر گئے اور یہ بت بھی گر جائیں گے، اب چاہے وہ بت ہوں جو انہوں نے پتھروں سے بنائے تھے یا وہ بت ہوں جو خود قومیں یا بعض قومیں انسانوں کی شکل میں تراشتی اور بناتی ہیں یہ بھی سب ختم ہو جائیں گے اور مٹ جائیں گے صرف ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم حوصلہ سے کام نہیں لیتے۔